ورلڈکپ 2015کی ناکام مہم کے بعد ریٹائر ہونے والے کپتان مصباح الحق کے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلنے کی ضرورت شدت کیساتھ محسوس کی گئی، سابق کرکٹرز اور مبصرین نے فرسودہ کرکٹ کو چھوڑ کر جدید انداز اپنانے پر زور دیا۔
پی سی بی کی جانب سے بہتری لانے کی بلند بانگ دعوے بھی کئے گئے لیکن اچانک ہی فیصلہ ایسا کیا گیا کہ دنیائے کرکٹ حیران رہ گئی، اس وقت ورلڈکپ سکواڈ کے قابل بھی نہ سمجھے جانے والے اظہر علی کو ون ڈے ٹیم کی قیادت سونپنے کا حیران کن فیصلہ کیا گیا۔
خدشات کے عین مطابق ’’ مصباح الحق ٹو‘‘ کو کپتان بنائے جانے کے بعد مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کا غیر فطری منصوبہ ناکام ہوا تو قرعہ فال سرفراز احمد کے نام نکلا،کپتان اور کھلاڑیوں کی میدان میں اچھل کود کافی زیادہ ہوئی، فٹنس میں بہتری کا نعرہ بھی لگایا گیا لیکن اس دوران مستقل مزاجی کی امیدیں حسرت میں بدلتی رہیں،ٹیسٹ کرکٹ میں کارکردگی کا گراف بلند کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی، ون ڈے میں چیمپئنز ٹرافی کی صورت میں ایک کرشمہ ضرور ہوا لیکن مجموعی طور پر پرفارمنس متاثر کن نہیں رہی۔
انضمام الحق نے چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ سے ٹیسٹ اور ون ڈے میچز کے لیے موزوں ٹیلنٹ تلاش کرنے کے بجائے پی ایس ایل سے سامنے آنے والے نوجوان کرکٹرز پر انحصار کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم تو فتوحات کا تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی لیکن ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں ٹمپرامنٹ کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی کمی ہوتی گئی۔
تکنیک، مزاج اور فٹنس میں کمی کی وجہ سے عامیانہ معیار کے کرکٹرز کو آزمانے اور باہر بٹھانے کا سلسلہ جاری رہا، مستقبل غیر یقینی ہونے کی تلوار لٹکی رہنے کی وجہ سے کئی کھلاڑی بننے کے بجائے بگڑے اور پھر ٹیم سے باہر ہی ہوگئے،کبھی کسی ایک بیٹنگ یا بولنگ پوزیشن پر کسی نے کارکردگی دکھائی بھی تو اگلی سیریز میں حریف ٹیم اور کنڈیشنز بدلتے ہی مسائل سامنے آنے لگے۔
مثال کے طور پر چیمپئنز ٹرافی میں احمد شہزاد سے مایوس ہوکر فخرزمان کو موقع دیا گیا، ٹیمیں ان کی تکنیک سے واقف نہیں تھیں،اس لئے انہوں نے کارکردگی بھی دکھائی، بعد ازاں ان کا بیٹ زیادہ ترکمزور ٹیموں کیخلاف ہی چلتا نظر آیا، ورلڈکپ میں بھی اوپنر کوئی بڑی اور تہلکہ خیز اننگز کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
روہت شرما، ایرون فنچ سے موازنہ کیا جائے تو اوپنرز کہیں آس پاس بھی نظر نہیں آتے، امام الحق تکنیکی طور پر بہتر ہونے کے باوجود آف سٹمپ سے باہر جاتی گیندوں اور بائونسرز پر اپنی کمزوری پر قابو نہیں پاسکے، بابر اعظم اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھاتے رہے لیکن ٹاپ آرڈر کی ناکامیاں بعض اوقات ان کا نیچرل کھیل بھی متاثر کردیتی ہیں،آئوٹ آف فارم کپتان سرفراز احمد بیشتر مواقع پر دھوکا دیتے رہے۔
پاکستان ٹیم کو ورلڈکپ میں اسی طرح کے مسائل کا سامنا رہا،بولنگ میں بھی تجربات کا سلسلہ آخر تک ختم نہیں ہوا، محمد عامر اور وہاب ریاض کو جنید خان اور فہیم اشرف کا تجربہ ناکام ہونے کے بعد شامل کیا گیا،چیمپئنز ٹرافی کے ہیرو حسن علی اور شاداب خان بیٹسمینوں کے لیے خطرہ نہیں بن سکے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان نے اگر اچھا مجموعہ حاصل کر بھی لیا تو بولرز دفاع نہیں کرپائے۔
ورلڈکپ کی ناکام مہم کے بعد ایک بار پی سی بی کو کئی سوالوں کے جواب تلاش کرنا تھے، چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے بیشتر اختیارات بھی سنبھال لینے والے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے قومی کرکٹ کے پورے سسٹم میں سدھار لانے کا دعویٰ کیا، چیف سلیکٹر انضمام الحق کو رخصتی کا پروانہ جاری کردیا گیا،کرکٹ کمیٹی میں شامل مصباح الحق نے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا، پھر خود ہی ہیڈکوچ کیساتھ چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی سنبھال لیا،ورلڈکپ 2015کے بعد مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے مصباح الحق کے بجائے اظہر علی کو ون ڈے کپتان بنانے کا ناکام تجربہ کیا گیا تھا۔
ستم ظریفی یہی ہے کہ اب وہی مصباح الحق ڈبل رول میں فیصلے کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ کو بے حال کررہے ہیں،سری لنکا کیخلاف سیریز سے قبل سرفراز احمد کو بھرپور سپورٹ فراہم کرنے کے دعوے کرنے والے سابق کپتان نے ایک دم ہی مستقبل کے لیے تیاریوں کے نام پر ان کو باہر بٹھانے کا فیصلہ کردیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں کارکردگی اچھی نہیں تھی لیکن اس کا قصور وار صرف سرفراز احمد کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا، چیمپئنز ٹرافی فتح کے باوجود ٹیم میں کمزوریاں موجود اور ان کو دور کرنے کے لیے مسلسل کام کرنے کی ضرورت تھی،طویل فارمیٹ کے لیے موزوں کرکٹرز کی کھیپ تیار کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔
ٹی ٹوئنٹی میں تو پاکستان ٹیم نمبر ون تھی، سری لنکا کے ہاتھوں ہوم سیریز میں شکستیں ہوئیں تو اس کی وجہ کمبی نیشن میں تبدیلی تھی، یہ فیصلے بھی سرفراز احمد نے نہیں کئے تھے، اس کے باوجود ان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا،اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ قیادت بابر اعظم کو سونپ دی گئی،نوجوان بیٹسمین قومی ٹیم کے واحد کھلاڑی ہیں جن کی کارکردگی میں تسلسل ہے،کپتانی کا بوجھ اٹھانے کے لیے ان کے کندھوں پر انحصار پاکستان کو مہنگا بھی پڑ سکتا، یہ فیصلہ اس لئے بھی درست نہیں لگتا کہ ان کی پہلی ہی آزمائش سخت جان کینگروز کیخلاف سیریز میں ہوگی، ٹیسٹ کرکٹ میں قیادت کے لیے اظہر علی کو لایا گیا ہے جن کی گزشتہ انٹرنیشنل میچز میں انفرادی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔
آسٹریلیا میں پاکستان کی ٹیمیں ہمیشہ جدوجہد کرتی رہی ہیں،ریکارڈز پر نظر ڈالی جائے تو مایوس کن صورتحال نظر آتی ہے،کئی نامی گرامی کرکٹرز کی موجودگی میں بھی پاکستانی ٹیمیں فتوحات کو ترستی رہیں، کئی تجربہ کار کپتانوں کا حوصلہ بھی جواب دیتا رہا۔ابھی تک پاکستان نے آسٹریلیا میں 35ٹیسٹ میچ کھیلے، صرف 4جیتے اور 24ہارے ہیں،7ڈرا ہوئے،آخری فتح نومبر1995میں سڈنی میں حاصل کرنے کے بعد گرین کیپس نے مسلسل 12میچ ہارے ہیں، فتح تو کیا، اس دوران ایک بھی میچ ڈراکرنے میں بھی کامیابی نہیں حاصل ہوسکی،ان مسلسل ناکامیوں میں سے 3میچز میں اننگز اور اتنے ہی مقابلوں میں 200سے زائد رنز کے مارجن سے شکست ہوئی۔
ون ڈے میں بھی پاکستان ٹیم نے کینگروز کیخلاف 56میچز میں سے 17جیتے اور 37ہارے ہیں،ایک میچ ٹائی اور ایک بے نتیجہ ختم ہوا،جنوری 2017 میں کھیلی گئی سیریز میں گرین شرٹس 4میچز میں سے ایک جیت پائے تھے،اس سے قبل 2010کی سیریز کے پانچوں مقابلوں میں شکست کھائی تھی،پاکستان کا کینگروز کیخلاف ٹی ٹوئنٹی میچز میں مجموعی ریکارڈ اچھا ہے،20باہمی میچز میں سے گرین شرٹس نے 12میں کامیابی حاصل کی، 7میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،ایک مقابلہ ٹائی ہوا،اکتوبر 2017میں یواے ای میں کھیلی جانے والی سیریز میں پاکستان نے آسٹریلیا کو 3-0سے کلین سوئپ کیا تھا، کینگروز کے دیس میں دونوں ٹیمیں ایک ٹی ٹوئنٹی میچ میں مقابل ہوئی ہیں، فروری 10میں ہونے والے اس مقابلے میں پاکستان کو 2رنز سے شکست ہوئی تھی۔
ٹی ٹوئنٹی میں مجموعی ریکارڈ تو بہتر لیکن اب کپتان نیا اور قومی ٹیم میں کئی نئے چہرے بھی شامل ہیں، بیٹنگ میں فخرزمان اعتماد کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں، حارث سہیل کی فارم اچھی نہیں،شعیب ملک اور محمد حفیظ جیسے سینئرز کی عدم موجودگی میں بابر اعظم کو قیادت کیساتھ بیٹنگ کا بوجھ اٹھانا ہوگا، آصف علی قومی ٹی ٹوئنٹی میں چند اچھی اننگز کھیلے ہیں،افتخار احمد فارم کے متلاشی رہے،دونوں کو ہیڈکوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق آئندہ سال آسٹریلیا میں ہی ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پلان کا حصہ سمجھ رہے ہیں،ان کے لیے بہترین موقع ہوگا کہ پاور ہٹر کا خلا پر کرتے ہوئے خود کو میچ ونر ثابت کریں۔
بولنگ میں محمد عامر اور وہاب ریاض کے طور پر ماضی میں فٹنس مسائل کا شکار رہنے والے طویل قامت پیسر محمد عرفان کو بھی شامل کیا گیا، نوجوان بولرز محمد موسٰی اور محمد حسنین کی کارکردگی پر شائقین کی نگاہیں مرکوز ہوں گی، آل رائونڈرز میں شاداب خان قومی ٹی ٹوئنٹی میں تو قدرے بہتر بولنگ کرتے نظر آئے لیکن آسٹریلوی کنڈیشنز میں ان کی کارکردگی اہم ہوگی،دوسری جانب عماد وسیم بھی بیٹ اور بال دونوں سے اپنی افادیت ثابت کرنے کے لیے فکر مند ہوں گے، ماضی کے ریکارڈز کو دیکھتے ہوئے تو پاکستان ٹیم سے بڑی امیدیں وابستہ نہیں کی جارہیں لیکن قوم ایک بار پھر آس لگائے بیٹھی ہے کہ شاید اس بار کوئی کرشمہ ہوجائے۔
The post آسٹریلیا کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز؛ نوآموز پاکستان ٹیم اور کپتان کا کڑا امتحان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » کھیل https://ift.tt/2MOaHW0