ماں بننا ہر عورت کی اولین خواہش ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ ہر عورت کے اندر ایک ماں چھپی ہوتی ہے۔
ممتا کا احساس ہی اتنا دلکش ہے کہ اسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔ شادی کے بعد کسی بھی لڑکی کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد ممتا کے رتبے پر فائز ہوسکے اور جس روز وہ اپنے قدموں تلے جنت کی نوید سنتی ہے اس روز وہ خود کو ہوائوں میں اڑتا، پرسکون، پر امید اور زندگی سے بھر پور محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ اب وہ اکیلی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ننھی جان بھی جڑی ہے۔
عموماً حمل کے دوران خواتین بہت سے مسائل کا شکار رہتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں بعد میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر پہلے بچے کی پیدائش اور پرورش کے حوالے سے ان کے خدشات بے جا نہیں۔ بچے کے دنیا میں آنے کی خوشی تو ایک حقیقت ہے مگر اس کے ساتھ بچے کو سنبھالنے، اس کی ضروریات سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے کی فکر بعض اوقات وبال جان بن جاتی ہے۔
خصوصاً اس وقت جب گھر میں کوئی بزرگ خاتون یا بچے کی نانی دادی موجود نہ ہوں۔ نوزائیدہ بچے کی زبان سمجھنا بے حد مشکل ہے کیونکہ اسے رونے کے سواء کچھ کہنا نہیں آتا۔ وہ بھوکا ہو یا بیمار وہ اپنی ہر کیفیت کا اظہار رو کر ہی کرتا ہے۔ ایسے میں ماں امتحان میں پڑجاتی ہے۔
آج ہم ان تمام مائوں کے لئے معاون ہونے والے چند سنہری اقدامات پہ نظر ڈالیں گے جن سے ان کی زندگی سہل ہوسکتی ہے۔ وہ خواتین جو پہلی بار ماں بننے کے بعد نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کے حوالے سے متفکر ہیں۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد خود کو بہت پر سکون محسوس کریں گی اور اپنے بچے کی دیکھ بھال بہتر انداز میں کرنے کے قابل ہو سکیں گی۔
-1دودھ
نومولود بچے کو پیدائش کے چار سے چھ گھنٹے کے اندر اندر ماں کا دودھ پلانا چاہیے۔ ماں کا دودھ جہاں ننھے بچے کے لیے غذائیت اور طاقت کا ذریعہ ہے ونہی یہ اس کے اندر بیماریوں سے لڑنے کے لیے قوت مدافعت پیدا کرنے کے ساتھ اینٹی بائیوٹک اور اینٹی اکسیڈنٹ کا بھی کام دیتا ہے کیونکہ اس میں اللہ نے وہ تمام لوازمات رکھے ہیں جو ایک نوزائیدہ بچے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
ماں کا دودھ جہاں بچے کے لیے فائدہ مند ہے ونہی یہ خود ماں کے لیے بھی نہایت افادیت رکھتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو خواتین بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں وہ بریسٹ کینسر اور بہت سے ہارمونل پرابلمز کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ 6 سے 8 ماہ تک بچے کو کسی دوسری غذا کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ماں کا دودھ ہی اس کی مکمل غذا ہوتا ہے۔ ہر دو سے تین گھنٹے بعد بچے کو دودھ پلانا ضروری ہے جس سے اسکا پیٹ بھرجائے اور اسے توانائی ملتی رہے۔
ٹپس:۔
(i دودھ پلانے سے پہلے اپنے ہاتھ اچھی طرح سے دھولیں اور خشک کرلیں۔
(ii بچے کو احتیاط سے گود میں لٹائیں کوشش کریں کے بچے کے دودھ پینے میں آسانی ہو۔
(iii فیڈر سے دودھ پلانے والی مائوں کو چاہیے کے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد فیڈر کو چند سیکنڈ کے لیے بچے کے منہ سے الگ کریں کیونکہ مسلسل نپل کے منہ میں رہنے سے بچے کو سانس لینے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(iv ہر بار دودھ پلانے کے بعد بچے کو کندھے سے لگا کر ہلکے ہاتھوں سے اس کی کمر کو تھپکیں اس سے دودھ کو ہضم ہونے میں مدد ملے گی۔ بچے کو دودھ پلانے کے بعد سیدھا لٹا دینے کی وجہ سے عموماً بچے دودھ پھینک دیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ دودھ ہضم نہ ہونا ہوتی ہے۔
(V فیڈر کو نیم گرم پانی میں ڈال کر ابالیں۔
(Vi پلاسٹک کے بجائے اچھی کوالٹی کے شیشے والے فیڈر استعمال کریں۔
(Vii فیڈر کی نپل ہر دو ہفتے بعد تبدیل کریں۔
-2 ناف کی دیکھ بھال
حمل کے دوران ماں کے پیٹ میں بچے کی نشوونما کا واحدذریعہ امبریکل کوڈ (Ambilical Cord)بچے کی ناف سے جڑی ایک نالی ہوتی ہے جس کی بدولت بچہ ماں سے اپنی ضروریات کے مطابق خون حاصل کرتا ہے۔اسی کی بدولت شکم مادہ میں اسکی نشوونما ہوتی ہے پیدائش کے بعد اس نالی کو ناف سے کچھ انچوں کے فاصلے پر کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے اور دو سے اڑھائی ہفتے کے درمیان یہ خشک ہوکر خود ہی ناف سے الگ ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر اس کا خیال نہ کیا جائے تو یہ دردِ سری کاسبب بن سکتاہے اور بچے کی جان کو اس سے شدید خطرناک قسم کے خدشات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لیے چند ٹپس پر عمل پیرا ہونا بے حد ضروری ہے۔
ٹپس:۔
(i ہر بار ڈائپر چینج کرنے کے بعد بچے کے پیٹ کو نیم گرم پانی میں ڈوبی روئی سے صاف کریں اور ناف کے اردگرد کسی بھی قسم کی گندگی کو فوراًصاف کریں۔
(ii ناف کی نالی کو ڈائپر کے اندر ڈالنے سے گریز کریں۔ ایسا کرنے سے وہ خشک ہونے کے بجائے انفکشن کا شکار ہوگی۔
(iii کسی بھی قسم کی بدبو، سرخی، سوجن یا پس کا خدشہ ہو یا ایسی علامات محسوس ہوں تو فوراً سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
(iv نہلانے کے دوران یہ گیلی ہوجائے تو کوئی خطرے کی بات نہیں مگر اس کو احتیاط سے فوراً اچھی طرح صاف کریں اور خشک کریں۔
(v خبردار ناف سے کسی بھی ٹکرانے والی چیز کو دور رکھیں۔
-3 مالش
آجکل بچوں کی مالش کرنے کو اولڈ فیشن اور دقیانوسی خیال سمجھا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ بچے کے لیے اور اس کی ہڈیوں کی نشوونما کے لیے بے حد ضروری ہے۔مالش سے بچے کا جسم کھلتا ہے اور پٹھوں کو مضبوطی ملتی ہے۔
ٹپس:۔
(i بچے کو مساج کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
(ii بچے کو مساج ہلکے ہاتھوں سے کریں۔ کیونکہ بچے بڑوں کی طرح جسمانی ٔلحاظ سے مضبوط نہیں ہوتے۔
(iii مساج کے دوران اگر بچے روئیں تو انہیں لوری سنائیں۔ بچے کیونکہ آوازوں کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں اور سروں کو پسند کرتے ہیں اس سے ان کا دھیان بٹ جاتا ہے۔
-4 نہلانا
اپنے بچے کو پہلی مرتبہ نہلانا ایک مشکل مگر خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ نوزائیدہ بچے کے جسم پر ایک زردی مائل سفید تہہ جمی ہوتی ہے جو کہ دراصل ماں کے پیٹ میں بچے کو آنے والے پسینے سے بنی ہوتی ہے جوکہ بچے کو نقصان سے بچاتی ہے۔ یہ تہہ بچے کے جسم کو بیکٹریا سے بچاتی ہے اور اس کی حساس جلد کی حفاظت کرتی ہے۔ 5 سے 10 روز کے درمیان یہ خود بخود جسم سے اتر جاتی ہے، بچے کی جسمانی صفائی کا خاص خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے اس ضمن میں اسے نہلانا ایک اہم کام ہے۔
ٹپس:۔
(i صاف کپڑا لے کر اسے نیم گرم پانی میں بھگو کر بچے کے جسم کو اچھی طرح صاف کرنا سب سے بہترین ہے۔ ایسا کرنا ہفتے میں تین بار ضروری ہے۔
(ii دوسرے ماہ میں بچے کو پانی سے اور صابن سے نہلانا بھی مفید ہے مگر خیال رہے کہ جن اشیاء کو ہم استعمال کرتے ہیں وہ ہماری عمر اور جلد کے حساب سے تیار کی جاتی ہیں۔
بچوں کی جلد پر دہی استعمال کرنے سے نقصان ہوسکتا ہے۔
(iii بچے کی جلد کے حساب سے اس کے لیے شیمپو اور صابن کا انتخاب کریں۔
(iv بچے کی جلد پر صابن اور شیمپو کا کم سے کم استعمال کریں۔
(v نرم اور صاف تولیے سے خشک کرکے لوشن اور پائوڈر لگائیں۔ کپڑے پہنائیں۔
(vi بچے کو ہمیشہ الٹا کر کے نہلانا چاہئے اس سے پانی اسکے ناک میں یا کان میںجانے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ ہاتھوں پہ اٹھا کر سنک میں نہلانا زیادہ آسان ہے۔
-5 جلد
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بچوں کی جلد قدرتی طور پر انتہائی نرم و نازک ہوتی ہے۔ پنکھڑیوں جیسی ملائم جلد کی حساسیت کے پیش نظر ایسے پروڈکٹس کا استعمال کریں جو بے بی کی سکن کی حفاظت کرے۔ بچوں کی جلد پہ عموماً خشکی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ابھر آتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان سے بچائو کے لیے نوزائیدہ بچوں کی سکن پر لوشن کا استعمال کرنا چاہیے۔
ٹپس:۔
(i ہمیشہ مستند بے بی کیئر پروڈکٹس کا استعمال کریں۔
(ii بے بی سکن کیئر کے اچھے پروڈکس عموماً مہنگے ہوتے ہیں۔ مگر آپ ایک مرتبہ انہیں استعمال کے لیے خرید کر زیادہ عرصہ چلاسکتے ہیں۔
(iii دو سے چار ہفتے کے بچوں کے چہرے پر عموماً چھوٹے چھوٹے دانے نکل آتے ہیں جس کی وجہ ابھی تک ماں کے جسم سے منتقل ہوئے ہارمونز ہوتے ہیں۔ ان باریک دانوں نے حوالے سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ جلد ہی خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔
(iv بچے کی جلد کو نیم گرم پانی سے صاف کریں یہ اس ضمن میں موزوں ترین ہے۔
-6 سر
بچے کا سر پیدائش کے بعد انتہائی نازک حصہ ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت سر کی ہڈیاں نرم ہونے کی وجہ سے اپنی ہیت اور ساخت بدل لیتی ہیں۔ سر کے اوپر والے حصے کو سب سے زیادہ حساس قرار دیا گیا ہے کیونکہ بچے کے سر کا اوپر والا حصہ نہایت نرم ہوتا ہے اور اسے کسی بھی قسم کا دبائو پہنچے تو دماغ پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ عموماً بچے کے دماغ کے عین اوپر کچھ حصہ نہایت نرم ہوتا ہے جسے تالو کہتے ہیں۔ اس کی حفاظت نہایت اہم ہے ورنہ بچہ زندگی بھر کے لیے ذہنی معذوری کا شکار ہوسکتا ہے۔
ٹپس:۔
(i بچے کے سر پر کچھ نشانات ابھر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر عموماً زخم یا میل کا گمان ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ زخم یا میل نہیں ہوتے انہیں کھرچنے کی کوشش ہرگز نہ کیجئے۔
(ii ایسے نشان کی وجہ کے بارے میں خیال یہ ہے کہ یہ ماں کے ہارمونز یا کسی فنگل انفکشن کی وجہ سے بنتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ اپنی مدت پوری کرکے خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ انہیں ختم ہونے میں چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ سو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
(iii اگر آپ ان نشانات سے زیادہ پریشان ہیں تو ہلکے ہاتھوں سے ان پر لوشن لگاسکتے ہیں۔
(iv جب یہ نشانات جلد سے الگ ہوکر سوکھنے لگیں تو انہیں ہلکے ہاتھوں کھنگھی کی مدد سے اتار لیں۔
-7 ناخن
ننھے منے ہاتھوں کی دبلی پتلی انگلیوں پر مہین مہین ناخن ویسے تو بہت خوبصورت لگتے ہیں مگر یہ بچے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ بچے کے ہاتھ کھلے ہونے کی صورت میں یہ اس کی آنکھوں، ناک، منہ یا کسی بھی حساس جگہ کو نقصان پہنچا سکتے ہے۔
ٹپس:۔
(i بچے کے ناخن کسی چھوٹی قینچی یا نیل کٹر سے کاٹ دیجئے۔ ناخنوں کے کنارے احتیاط سے برابر کیجئے۔
(ii ناخنوں میں میل نہ جمنے دیں۔
(iii بچے کے ہاتھ روزانہ وائپ یا نیم گرم پانی سے صاف کریں۔
-8 کان
بچے کے معصوم سے کانوں کو صفائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قدرتی طور پر ان میں جمع ہونے والا موم خود ہی صاف ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے ایئربڈ (Ear Bud) استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی نوکیلی چیز کو کان کے قریب لانے سے گریز کریں اور زیادہ سے زیادہ بچے کے کان والے بیرونی حصے میں جمع شیدہ (ویکس) مادے کو نکالنے کے لیے ہلکے گرم پانی میں ڈوبی روئی یا کاٹن کے کپڑے کی مدد سے نکال لیں۔
-9 آنکھیں
نوزائیدہ بچوں کی آنکھیں اپنے اندر ایک عجب سی دلکشی سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی سی آنکھوں کو دیکھنے پر یوں گمان ہوتا ہے جیسے کوئی معصوم فرشتہ ہو مگر ان کی حفاظت کرنا بے حد ضروری ہے۔
ٹپس:۔
(i بچے کو ہاتھ لگانے اور پیار کرنے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوئیں۔
(iii صاف کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تازہ پانی میں روئی ڈبو کر اس طرح صاف کرلیا کے ناک کے پاس آنکھ کے کنارے سے باہر کی طرف صاف کریں۔
(iii آنکھوں میں سرخی یا فاصد مادہ نکلنے کا مطلب آنکھوں میں انفکشن ہے۔ اس کے حوالے سے ڈاکٹر سے فوری طور پر رجوع کریں۔
-10 منہ
گلابی پنکھڑیوں والے منہ کے حوالے سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس میں بیکٹریا اپنی جگہ بناسکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خطرناک قسم کے بیکٹریا اس تاک میں رہتے ہیں کے وہ حملہ کر سکیں، اسی لیے نوزائیدہ بچے کے منہ کی حفاظت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کے کسی اور حصہ کی۔
ٹپس:۔
(i بچے کے مسوڑوں کو روزانہ صاف پانی میں ڈوبے کپڑے کی مدد سے دھوئیں۔
(ii دانت آنے کی صورت میں نرم برش سے انہیں صاف کریں۔
(iii ایک برس کی عمر سے پہلے بے بی Toothpaste بھی استعمال نہ کروائیں۔
-11 دھوپ
بچے کو وٹامن ڈی کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ سورج وٹامن ڈی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو دھوپ لگوانے سے یہ ضرورت بنا کوئی پیسہ خرچ کئے پوری کی جاسکتی ہے۔ وٹامن ڈی ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات دوران حمل ماں کے پیٹ میں بچہ یرقان کا شکار ہوجاتا ہے جس کی بنیادی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہوتی ہے۔ ایک صحت مند بچے کے لیے وٹامن ڈی کا حصول بے حد ضروری ہے۔
ٹپس:۔
(i روزانہ 10 سے 15 منٹ کے لیے بچے کو دھوپ لگوائیں۔
(ii دھوپ میں بچے کے جسم کی مالش کرنا بھی موزوں ہے۔
(iii زیادہ دیر بچے کو سورج کے عین سامنے رکھنا اس کی جلد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
-12 ڈائپر
پہلے بچے کی پیدائش کے بعد والدین حیران و پریشان رہ جاتے ہیں کہ آخر دن میں کتنی مرتبہ بچے کے ڈائپر تبدیل کرنا پڑیں گے۔ اس پریشانی سے بچنے اور اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے آپ ڈھیر سارے ڈائپر خرید کے رکھ سکتے ہیں۔ جہاں ڈائپر سے بہت سے معاملات میں بچت ہوتی ہے ونہی یہ بچے کے لیے نیپی ریشیز کا باعث بھی بن سکتے ہیں جس سے بچہ شدید تکلیف کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔
ٹپس:۔
(i اگر ریشیز پڑجائیں تو ان پر بے بی رئیش کریم لگائیں۔
(ii کوشش کریں کے بچے کی کو تازہ ہوا لگے اور کچھ ٹائم کے لیے ڈائپر کا استعمال بند کردیں۔
(iii لان یا کاٹن یا سوتی کپڑے کے لنگوٹ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
-13 ویکسینیشن
نوزائیدہ کو موسمی بیماریوں اور وائرس سے بچانے کے لیے ویکسینیشن ناگزیر ہے۔ اس دوران بچہ بخار میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ویکسین جسم میں جاکر مدافعت کے نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے تاکہ اسے مضبوط بناکر بیماری سے بچاجاسکے۔ کیونکہ ویکسین بذات خود اسی بیماری کے جراثیم سے بنی ہوتی ہے تو وہ بعض اوقات بچے کو بخار میں مبتلا کردیتی ہے مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ کے بچے کو خناق، تپ دق، خسرہ، پولیو، ملیریا اور ایسے ہی کئی موذی امراض سے بچاتی ہے۔
ٹپس:۔
(i اگر بچے کو پہلے سے ذکام یا بخار ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے ویکسینیشن کے لئے آگے کی ڈیٹ لے لیں۔
(ii بچے کو الرجی ہو تو اسی صورتحال میں ویکسینیشن کروانا رسک کا باعث ہے۔
(iii ویکسینیشن کے بعد بخار، بھوک نالگنا اور سستی چھائی رہنا عام علامات ہیں۔
(iv اگر بخار 102 سے بڑھ جائے تو محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا تمام ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اپنے بچے کی بہترین دیکھ بھال کرسکتی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنا بھی خیال رکھیے کیونکہ آپ کے بچے کو آپ کی ضرورت ہے۔ چند باتوں کو ذہن نشین کرلیجئے۔ ہمیشہ بچے کے قریب جانے سے پہلے یہ تسلی کرلیں کہ آپ کے ہاتھ صاف ہیں یا نہیں خصوصاً بچے کو فیڈ کروانے سے پہلے ۔بچے کو زور زور سے کبھی مت ہلائیں۔
اپنے ناخن باقاعدگی سے کاٹیں آپ کے ننھے منے بچے کو اگر یہ بڑھے ہوئے ناخن لگ گئے تو اس کی کومل سی جلد زخمی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ بچے کو اپنا دودھ پلا رہی ہیں تو ایسی غذائیں کھانے سے گریز کریں جو بادی ہوں جیسے چنے کی دال، اروی، کچی پیاز وغیرہ۔ کیونکہ آپ جو بھی کھائیں گی وہ دودھ کے ذریعے بچے کے پیٹ میں جائے گا اور نتیجتاً آپ کا بچہ پیٹ درد سے چلّائے گا۔ وٹامن سے بھرپور غذائیں استعمال کریں یہ بچے اور آپ دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں گی۔ موسم کی مناسبت سے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کریں اور اپنے بچے کے ساتھ بہترین وقت گزاریں۔
The post نوزائیدہ کی دیکھ بھال، قدم قدم پر احتیاط کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/2O3lJIe