جمعے کے دن لاہور میں صحافیوں کو اچانک پریس کانفرنس کا بتایا گیا 99 فیصد کا خیال تھا کہ شاید چیئرمین پی سی بی احسان مانی سری لنکا سے ہوم سیریز کے حوالے سے کوئی اعلان کریں گے، مگر جب انھوں نے مصباح الحق کو بھی ان کے ساتھ دیکھا تو سمجھ گئے کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے، اس کے بعد پاکستان کرکٹ کے دونوں بڑوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ ’’اگلی سیریز میں بھی سرفراز احمد ہی قومی ٹیم کی قیادت کریں گے‘‘ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
چیئرمین بورڈ کا انتخاب3 سال کیلیے ہوا، اس دوران پاکستان کرکٹ میں جو بھی ہوجائے وہ عہدے پر براجمان رہیں گے، اسی طرح مصباح کو بھی تین برس کیلیے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سونپی گئی اس عرصے میں خدانخواستہ اگر ٹیم کی کارکردگی معیاری نہیں رہی تب بھی انھیں کوئی نہیں ہٹائے گا، دیگر پوزیشنز کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے،مگر کپتان کے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہتی ہے کہ ایک سیریز کیلیے تقرر ہوا ٹیم نہ جیت سکی تو شاید فارغ ہو جاؤں۔
سرفراز کو ہمیشہ اسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ورلڈکپ سے پہلے بھی وہ نہیں جانتے تھے کہ انگلینڈ بطور کپتان جانا نصیب ہو گا یا نہیں،اب بھی قیاس آرائیوں کا بازار گرم تھا اسی لیے بورڈ نے سیریز سے2 ہفتے قبل انھیں منصب قیادت پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا،اس غیریقینی سے نقصان ٹیم کا ہی ہے، ہر کوئی اپنے آپ کو مستقبل کا کپتان سمجھنے لگتا اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ قائد کا تو ایک سیریز کیلیے تقرر ہوا ٹیم نہ جیتی تو شاید میرا چانس بن جائے،پلیئرز کپتان کی باتوں کو سیریس نہیں لیتے اور رابطے و اعتماد کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔
ورلڈکپ میں بھی ایسا ہی ہوا، آپ لوگ اسے میڈیا کی سازشی تھیوری سمجھیں یا کچھ اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ٹیم میں اختلافات اور گروپنگ موجود تھی، خود کو مستقبل کا کپتان سمجھنے والے بعض کھلاڑیوں نے سرفراز سے مکمل تعاون نہیں کیا جس کی وجہ سے خراب نتائج سامنے آئے، اس غیریقینی صورتحال سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ آپ کپتان کا تقرر بھی کم از کم 2برس کیلیے کریں، اس دوران آندھی آئے یا طوفان اسے تبدیل نہ کیا جائے۔
چلیں سرفراز پسند نہیں تو آپ امام الحق کو کپتان بنا دیں مگر اس پالیسی پر عمل تو کریں، اس سے اسے ساتھیوں کی مکمل سپورٹ حاصل رہے گی، وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ یہ تو ایک سیریز کیلیے قائد بنااس کی بات کیوں مانیں، موجودہ طریقہ کار سے تو واضح ہے کہ پی سی بی کوخود سرفراز پر اعتماد نہیں، مگرمناسب آپشنز کی عدم موجودگی میں نہ چاہتے ہوئے بھی انہی کو ذمہ داری سونپنا پڑی، یہ بہت سنگین صورتحال ہے،ہماری ٹیم ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون اور اگلے سال ورلڈکپ بھی ہو گا، اس کے باوجود ہمیں یہ پتا ہی نہیں کہ کپتان کسے بنائیں گے۔
بورڈ کی بھی یہ غلطی تھی کہ اس نے مستقبل کیلیے کسی کو گروم نہ کیا، نائب کپتان تک نہیں بنایا گیا اسی لیے مسائل بڑھے، اب بابر اعظم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جوخوش آئند فیصلہ ہے، البتہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ان میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں،ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہوگا کہ اضافی کام سے کہیں ان کی بیٹنگ تو متاثر نہیں ہو گی، بابر ہمارے اہم ترین کھلاڑی ہیں ان کا اچھے انداز میں خیال رکھنا ضروری ہے، امید ہے وہ جلد قیادت کے گْر سیکھ جائیں گے، اسی کے ساتھ سرفراز کو بھی اب ’’تگڑا‘‘ ہونا پڑے گا۔
مکی آرتھر اور انضمام الحق مکمل طور پر ان پر حاوی رہے اور اپنی چلاتے رہے، چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد بھی سرفراز نے اپنی اتھارٹی نہیں منوائی، وہ گراؤنڈ میں جتنا چیختے چلاتے نظر آتے ہیں آف دی فیلڈ اتنا ہی محاذ آرائی سے دور رہتے ہیں، اس شرافت کا پھر لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، سرفراز کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ٹیم کے بیشتر فیصلے آرتھر کرتے مگر ہارنے پر ملبہ سرفراز پر گرتا، اسی طرح انضمام اپنی مرضی کا اسکواڈ منتخب کر لیتے اور کپتان کی رائے کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔
سرفراز نے ورلڈکپ کیلیے شان مسعود اور چند دیگر پلیئرز کو مانگا تھا مگر ان کی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی، اگر وہ اس وقت اسٹینڈ لیتے تو تنازع کھڑا ہوجاتا جس سے وہ دور بھاگتے ہیں، درحقیقت ورلڈکپ اسکواڈ تو یو اے ای میں ہی منتخب ہوگیا تھا اس وقت تو سرفراز ٹیم میں ہی شامل نہیں تھے،اب مصباح الحق آ گئے ہیں، سب جانتے ہیں کہ وہ سرفراز کو زیادہ پسند نہیں کرتے، انھیں صرف ایک موقع چاہیے اور وہ کپتان کو تبدیل کرا دیں گے، اب یہ سرفراز پر ہے کہ وہ کیسا رسپانس دیتے ہیں۔
لڑیں نہیں مگر کم از کم اپنی اتھارٹی ضرور دکھائیں، جب جواب طلبی آپ سے ہونی ہے تو فیصلے بھی اپنے کریں، ٹیم کے انتخاب میں اپنی بات منوانے کی کوشش کریں، سب سے بڑی بات خود اپنی کارکردگی پر زیادہ توجہ دیں، اگر آپ بہترین کھیل پیش کریں گے تو کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا، ٹیم کیلیے سوچنا اچھی بات ہے مگر اپنے آپ کو فراموش نہ کریں، اگر ورلڈکپ بھی جیت گئے اور انفرادی کارکردگی اوسط درجے کی رہی تو باتیں تو بنیں گی۔
سرفراز کو چاہیے کہ اوپر کے نمبر پر آ کر بیٹنگ کریں اور اپنے کھیل سے ثابت کریں کہ وہی کپتانی کے اہل کھلاڑی ہیں، جب خود پرفارم کریں گے تو ساتھی کھلاڑیوں میں بھی عزت بڑھے گی اور وہ کپتانی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں گے، دیکھتے ہیں سرفراز کیا کرتے ہیں لیکن زیادہ اعتماد ان میں اسی وقت آئے گا جب بورڈ طویل مدت کیلیے کپتان مقرر کرے، سیریز در سیریز انتخاب سے غیریقینی کی فضا برقرار رہے گی۔
خیراگلی سیریز تو سری لنکا سے ہے جس کے کئی اہم کھلاڑی پاکستان نہیں آ رہے، کمزور حریف کو چت کرنا تو دشوار نہیں ہوگا، ٹیم کا اصل امتحان تو آسٹریلیا میں ہونا ہے، دیکھتے ہیں اب ہمیں سرفراز کا اپ گریڈڈ2.0 ورژن ایکشن میں نظر آتا ہے یا نہیں۔
نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں
The post کپتان صرف ایک سیریز کیلیے کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » کھیل https://ift.tt/3036JjM