برکلے، کیلیفورنیا: طب کے استعمال میں مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا اے آئی کا غیرمعمولی کردار سامنے آرہا ہے۔ گزشتہ دنوں ماہرین نے بچوں کی کھانسی کی آواز سے ان کے مرض کی شناخت کا بہت کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔ اب اے آئی کی مدد سے بریسٹ کینسر کی شناخت میں بھی اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، لاس اینجلس نے پہلے ایک سافٹ ویئر بنایا جسے پہلے 240 چھاتی کی بایوپسی دکھائی گئی اور اس کے بعد ان کا موازنہ 87 پیتھالوجسٹ کی رپورٹ سے کیا گیا۔ اس سافٹ ویئر نے تمام اقسام کی بایوپسی کو ان کے مرض کے لحاظ سے انتہائی درستگی سے مختلف درجوں میں شامل کردیا۔ یہاں تک کہ اس کی صلاحیت ڈاکٹروں سے بھی بہتر دیکھی گئی۔
اگرچہ اس سے ڈاکٹر کی ضرورت ختم نہیں ہوجاتی لیکن اس سافٹ ویئر نے ایک اہم کارنامہ یہ انجام دیا کہ یہ ڈکٹل کارسینوما اِن سیٹو یعنی ڈی سی آئی ایس اور ایک اور قسم کے چھاتی کے سرطان ہائپرپلیشیا کے درمیان بہت درستگری سے امتیاز کرسکتا ہے ۔ یہ دونوں کینسر اتنی یکسانیت رکھتے ہیں کہ ماہر ڈاکٹر بھی ان کی شناخت میں مارکھاجاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ماہر ڈاکٹر جوان ایلمورے نے یہ تحقیق جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع کرائی ہے۔ ان کے مطابق مصنوعی ذہانت کا یہ نظام انتہائی پیچیدہ معلومات اور ڈیٹا سے قابل بھروسہ نتائج فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق ڈی سی آئی ایس کی درست شناخت ایک اہم سنگِ میل ہے جس سے بروقت علاج کرکے جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ڈی سی آئی ایس اور ہائپرپلیشیا کے طریقہ علاج میں بھی بہت فرق ہوتا ہے اور ایک مرض کا علاج دوسرے کے لیے ہرگز استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح مصںوعی ذہانت کو بہت کامیابی سے چھاتی کے سرطان میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق میں شامل نہ ہونے والی پیتھالوجسٹ ڈاکٹر میریلِن روزا نے بھی اے آئی کی افادیت پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ چھاتی کے ان دواقسام کے کینسر کے درمیان فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بعض ہائپرپلیشیا حقیقت میں ڈی سی آئی ایس کینسر جیسے دکھائی دیتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو نہ صرف بریسٹ کینسر بلکہ جلد کے سرطان کی شناخت میں بھی کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
The post مصنوعی ذہانت سے چھاتی کے سرطان کی بہتر تشخیص appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/2H3crrb