جس میں دو سو برس کے بُڈھے ہوں۔۔۔ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

جس میں دو سو برس کے بُڈھے ہوں۔۔۔

مرزاغالب نے بہادرشاہ ظفر کے لیے دُعا کی تھی:
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

خود بہادر شاہ ظفر تو سال بھر جینے میں بھی دل چسپی نہیں رکھتے تھے۔ وہ تو ’’عمرِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن‘‘، اگر ان کی مانگ پوری ہوجاتی تو وہ بن کِھلے مُرجھا جاتے، لیکن اگر غالب کی دعا قبول ہوتی تو بے چارے بہادر شاہ ظفر کو فلم ’’مغل اعظم‘‘ میں اپنے اجداد کی دُرگت بنتے دیکھنا پڑتا، مغل کریانہ اسٹور، مغل پان شاپ، مغل ہیئرڈریسر کے سائن بورڈ دیکھ کر جانے آخری مغل تاج دار پر کیا گزرتی، شاہی قلعے میں ’’رعایا‘‘ کو پان کی پیک مارتے اور لال قلعے میں نریندر مودی کو تقریر جھاڑتے دیکھ کر تو وہ دل پکڑ کر کہتے ’’ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے۔‘‘

غالب کی دعا تو خیر پوری نہ ہوئی، لیکن آپ اگر کسی کے لیے ہزار برس تو نہیں البتہ دو سو سال سلامت رہنے کی دعا مانگیں تو قبولیت کا امکان ہے، کیوں کہ اب برطانوی سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ دریافت کرلیا ہے جس کے ذریعے انسان کے 200 سال تک زندگی پانے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ برطانیہ کی ایسٹ اینگلیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کے دریافت کردہ طریقے کے تحت اگر ڈی اے ایف 2(DAF-2) نامی جین کو سوئچ آف کردیا جائے تو تمام جان داروں، بشمول انسان، کی زندگی دوگنا تک بڑھ جاتی ہے۔

یوں تو ہم حال کے آئن اسٹائن یا آئزک نیوٹن ہوسکتے تھے، لیکن مسلمانوں کے خلاف ہونے والی عالمی سازش کے تحت جب ہمیں میٹرک سائنس میں ڈی گریڈ دے کر پاس کیا گیا تو ممتحنوں کے یوں ’’ڈی گریڈ (Degrade) کرنے پر ہمیں اتنا غصہ آیا کہ ہمیں سائنس سے چِڑ ہوگئی، اسی لیے ہم پوری ہٹ دھرمی سے اس کے قائل ہیں کہ زمین ساکت ہے بلڈرز اور قبضہ مافیا کی طرح سورج زمین کے گِرد گھومتا ہے، کسی بچے کے ہونے میں کسی ’’گندی بات‘‘ کا عمل دخل نہیں ہوتا، ہر ننھے کو پَری لاتی اور جھولے میں ڈال جاتی ہے، زمین گائے کی سینگوں پر کھڑی ہے۔

جب گائے زمین کو ایک سے دوسرے سینگ پر منتقل کرتی ہے تو زلزلہ آتا ہے، یقیناً اسی گائے کے دودھ دینے سے سیلاب آتا ہے، کیوں کہ اسے گوالا میسر نہیں اسی لیے یہ خود ہی اپنے دودھ میں پانی ملاتی ہے، اب گائے تو ٹھہری گائے۔۔۔اتنا پانی ملا دیتی ہے کہ سارا دودھ شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے۔ اس ساری بک بک کا مقصد سائنس سے اپنی بے رغبتی کے بارے میں بتانا تھا، اور یہ بتانے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پَلے نہیں پڑا کہ عمر بڑھانے کے لیے سائنس دانوں نے اپنے دریافت کردہ جس طریقے کا ذکر کیا ہے اس کے کیا معنی ہوئے؟ ہم تو بس یہ سوچ رہے ہیں کہ انسانوں کی عمر دو سو سال ہونے لگی تو ہوگا کیا۔

داغ دہلوی نے کہا تھا:

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں

ایسی جنت کا کیا کرے کوئی

اگرچہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں، لیکن داغ کا یہ شعر ہمیں اچھا نہیں لگا۔ بھئی اگر گاڑی کا انجن، باڈی سب صحیح حالت میں ہیں تو اس سے کیا لینا دینا کہ ماڈل کب کا ہے؟ بہ ہرحال، داغ دہلوی آج ہوتے تو یہ خبر پڑھ کر کہتے

جس میں دو سو برس کے بُڈھے ہوں

ایسی دنیا کا کیا کرے کوئی

یہ دوسو برس کی ممکنہ عمر داغ ہی کا نہیں ہمارے لیے بھی دل دہلادینے والی ہے۔ اتنا جینے کا مطلب ہے کہ اگر کسی کی شادی پچیس سال کی عمر میں ہوئی ہے تو وہ بیوی کے ساتھ ایک سو پچھتر سال گزارے، اُسے ایک سو پچھتر مرتبہ شادی اور بیوی کی سال گرہ یاد نہ رکھنے پر ذلیل ہونا پڑے، یہ جینا بھی کوئی جینا ہوا۔

اگر دو سو سالہ عمر کا دور آگیا تو سینچری کرکے دارفانی سے کوچ کرنے والوں کو جواں مَرگ کہہ کر افسوس کیا جائے گا، نوے سال تک ’’ویلے‘‘ رہنے والے یہ سوچ کر مطمئن رہیں گے کہ عمر پڑی ہے کچھ کرنے کے لیے، ہوسکتا ہے پچاس برس کی عمر میں بیاہ کم عمری کی شادی قرار پائے۔ ہمیں رہ رہ کر یہ خیال بھی ستا رہا ہے کہ ایسا ہوا تو گورکنوں اور کفن فروشوں کا کیا بنے گا۔ امید یہی ہے کہ گورکن قبرستانوں میں چائنا کٹنگ کرکے پلاٹ بیچ دیں گے اور کفن فروش لٹھے کو رنگوا کر ان کی کُرتیاں بنا کر مارکیٹ میں لے آئیں گے، جس کے ساتھ ہی ’’کفن کُرتی‘‘ فیشن میں آجائے گی۔

طویل عمروں کے بعد موت ایسی نایاب ہوجائے گی کہ پچھتر سال کے ’’بچے‘‘ سوا سو سال کے باپ سے پوچھا کریں گے ’’ابو ابو! یہ جنازہ کیا ہوتا ہے‘‘ جواب ملے گا ’’بیٹا! اب تو یاد نہیں، یوٹیوب پر دیکھ لو۔‘‘ محلوں میں وفات کا اعلان یوں ہوا کرے گا،’’مکان نمبر چار سو بیس میں رہنے والے لُڈن بھائی کا اللہ اللہ کرکے انتقال ہوگیا ہے۔ نماز جنازہ بعد نمازعصر ادا کی جائے گی۔ جنھیں محلے کے ان پہلے مرحوم کے ساتھ سیلفیاں بنانی ہوں دوپہر دو بجے تک بنالیں۔‘‘ یہ خبر چینلوں پر بریکنگ نیوز بن کے نشر ہوگی۔ دور دور تک ’’دھوم‘‘ مچ جائے گی کہ شہر میں کوئی انتقال ہوا ہے۔ گھرگھر میں شورمچا ہوگا،’’بچوں کو تیار کردو جنازہ دیکھنے جانا ہے، کہیں شوہر سے شکوہ کیا جارہا ہوگا،’’پہلا پہلا جنازہ ہے اور میرے پاس نئے کپڑے بھی نہیں ہیں پہن کر جانے کے لیے‘‘،کہیں کہا جارہا ہوگا ’’موبائل فُل چارج کرلو وڈیو بنائیں گے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ یہ سائنس داں لوگوں کو اتنی طویل عمر کیوں دینا چاہتے ہیں۔ دو صدیوں تک زندہ رہنے کا تو سوچ کر بھی بے زاری ہونے لگتی ہے، اگر یہ نوبت آگئی تو سو سال جی کر لوگ دعا کے طور پر اپنے پیاروں سے نہیں بہ طور بددعا اپنے دشمن سے کہہ رہے ہوں گے ’’تم کو ہماری عمر لگ جائے۔‘‘

The post جس میں دو سو برس کے بُڈھے ہوں۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » سائنس/ٹیکنالوجی https://ift.tt/2YfMjjL