ستّر کی دہائی کے اواخر میں چین نے ملک میں ’صرف ایک بچہ پالیسی‘ نافذ کردی، دنیا کے دوسرے ممالک میں والدین کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ مختلف مانع حمل تدابیر سے بچوں کی تعداد کم کریں تاہم چین نے1979ء میں ایسی سخت گیر پالیسی نافذکی جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے قریباً ایک عشرہ تک دوبچوں کی پالیسی نافذ رہی تھی۔
80ء کی دہائی کے وسط میں پالیسی میں ترمیم کی گئی، اب صرف دیہاتوں میں ایسے والدین کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت دیدی گئی جن کے ہاں پہلے بیٹی تھی۔یوں 36برسوں تک قریباً چین پچاس فیصد گھرانوں کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت فراہم کی گئی۔اس سارے عرصہ کے دوران میں40 فیصد والدین نے پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک سے زیادہ بچے پیدا کئے، جس کا خمیازہ انھیں مختلف سزائوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔40کروڑ30لاکھ انٹرایوٹرائنزڈیوائسز بچہ دانیوں میں انتہائی بے رحمی کے ساتھ رکھی گئی، بڑی تعداد میں خواتین کی انتہائی غیرانسانی اندازمیں اسقاط حمل کیاگیا۔
ایسی بعض خواتین کے انٹرویوز لئے گئے ، ایک خاتون نے بتایا کہ سیکورٹی اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوئے، اسے پکڑا اور کھینچتے ہوئے ہسپتال لے گئے ، اس دوران اس کے پیٹ پر ٹھڈے مارے گئے۔ہسپتال میں اسقاط کیاگیا اور پھرسٹیرلائز کیاگیا۔ اسی طرح آٹھ ماہ کی حاملہ ایک دوسری خاتون کا زبردستی اسقاط کیاگیا۔کیسے کیاگیا، اس کا تصور بھی لرزہ خیز ہے۔وہ بتاتی ہے کہ جب بچہ رحم سے نکالاگیا تو وہ زندہ تھا۔بچے نے نرس کی آستین پکڑ لی لیکن اس نے بچے کو کوڑے دان میں پھینک دیا۔
بہت بڑی تعدادمیں والدین پر سخت جرمانے عائد کئے گئے ، جو والدین جرمانے ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، سیکورٹی اہلکار ان کے گھروں سے سامان لوٹ کر لے جاتے۔ نتیجتاً ہزاروں والدین سخت جرمانوں کے خوف سے اپنے بچوں کو اپنے سے جدا کر دیتے تھے۔ وہ بچوںکو پیدا ہوتے ہی کسی سڑک کنارے چھوڑ آتے تھے بالخصوص بیٹیوں کو تاکہ وہ بیٹے حاصل کرنے کی کوشش کرسکیں۔ ان میں سے بعض بچے وہیں مرجاتے تھے جبکہ بعض راہ گیروں کی نظرمیں آجاتے تھے، انھیں یتیم خانوں میں پہنچا دیا جاتا تھا جہاں سے بے اولاد جوڑے انھیں حاصل کرلیتے تھے۔یہ لے پالک بچے عشروں بعد اب جوان ہوچکے ہیں، بعض جوانی کی عمر سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ ان میں سے بعض لڑکیاں ایک فطری جذبے کے تحت اپنے اصل والدین کو تلاش کرنے لگیں، دوسری طرف والدین بھی اپنے بچوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اب چین میں بعض رضاکار ایسے بچھڑے ہوئے والدین اور بچوں کو ملانے کی کوشش کررہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ڈی این اے رپورٹس کی بنیاد پر ہی یہ ملاپ ممکن ہوتے ہیں۔
’لی یانگ گو‘ ایسے ہی ایک رضاکار ہیں، ان کا تعلق چین کے مشرقی شہر’جیانگ ین‘ سے ہے۔ وہ سرکاری ملازم ہیں اور’ریلیٹیو سرچنگ والنٹئیرنگ ایسوسی ایشن‘ کے چئیرمین ہیں۔ انھیںبچھڑے ہوئوں کو ملانے کا خیال کیسے سوجھا؟ وہ کہتے ہیں:
’’میں نے انٹرنیٹ پر ایک پوسٹ دیکھی، یہ ایک لڑکی کی تھی جو اپنے والدین کو تلاش کررہی تھی۔ پوسٹ کے مطابق وہ جس جگہ سے تعلق رکھتی تھی، وہ شہر میں میرے گھر کے قریب ہی تھی۔ میں نے اس کی مدد کی۔خوش قسمتی سے میں نے اسے اس کے والدین سے ملادیا۔ اس کے بعد میں نے مزید کئی لوگوں کو باہم ملایا، پھر یہ کام مسلسل کرنے لگا۔ اب تک ہم مجموعی طور پر57 خاندانوں کے لوگوں کو باہم ملا چکے ہیں۔ ہم اب بھی والدین سے کہتے ہیںکہ وہ ہم سے رابطے میں رہیں۔ ہم ان کے پیاروں کو ڈھونڈ کر ان کے پاس لے آئیں گے۔ اس کے لئے ان سے خون کا نمونہ لیں گے اور پھر اسے ہم اپنے ریکارڈ میں درج کرلیں گے‘‘۔ ’لی یانگ گو‘ کی ایسی پیشکش کے جواب میں بڑی تعدادمیں بچھڑے ہوئے ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ بعض کامیابی حاصل کرچکے ہیں جبکہ بعض ابھی تگ و دو کررہے ہیں۔
چائی فینگشیا(Cai Fengxia) اپنے والدین کو گزشتہ 12برس سے ڈھونڈ رہی تھی، اس نے اپنے ڈی این اے کا نمونہ ’ لی یانگ گو‘ کی تنظیم کے ایک دفتر میں جمع کرایا اور پھر ایک روز اپنے والدین کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ بتاتی ہے:’’ میں چاہتی تھی کہ اپنے والدین سے ملوں اور ان سے پوچھوں کہ انھوں نے مجھے کیوں چھوڑ دیا تھا‘‘۔ یادرہے کہ وہ ڈینگ شان(Dangshan) میں پلی بڑھی تھی۔ یہ قصبہ صوبہ انہوئی کے شمال میں واقع ہے ۔ناشپاتیوں، آڑوئوں، آلوچوں اور تربوزوں سے بھرے اس علاقے میں رہنے والے ایک جوڑے نے چائی فینگشیا کوگود لیا تھا۔
لڑکی نے یہاں کے کئی لوگوں سے سناتھا کہ وہ ’ووشی‘( Wuxi) کے علاقے سے آئی تھی جو چین کے جنوبی صوبہ جیانگسو میں واقع ہے۔ اس کے باپ(جس نے چائی فینگشیا کو پالا تھا) نے بتایا کہ وہ ایک یتیم خانے کے باہر کھڑے تھے جب وہ انھیں ملی تھی۔ وہ وہاں کھڑے دیکھ رہے تھے کہ ایک ویلفیئرانسٹی ٹیوٹ والے شیرخواربچوں کو گود لے رہے تھے۔ پھر جب یہ لڑکی اپنے اصل والدین کو ڈھونڈنے نکلی تو اس کے باپ ( جس نے اسے گود لیا تھا) نے اسے بخوشی اس کی اجازت دی۔ دراصل چائی فینگشیا نے باپ کو یقین دلایا تھاکہ اگر وہ اپنے والدین کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی، تب بھی وہ اس کا خیال رکھے گی۔
پھر ایک روز ’ریلیٹیو سرچنگ والنٹیئرنگ ایسوسی ایشن‘ نے چائی فینگشیا کو اپنی ایک تقریب میں بلایا، تلاش کے 12سالہ طویل سفر نے اسے تھکادیاتھا۔ اب جب وہ ’جیانگ ین‘ شہرمیں منعقدہ اس تقریب میں شرکت کے لئے عازم سفرہوئی تو اس نے طے کر لیا تھا کہ بس! تلاش کا یہ آخری سفر ہوگا۔ وہ ساڑھے پانچ سوکلومیٹر کا سفر طے کرکے اس شہرمیں پہنچی جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔ ما شیانگ (MA XIANG) اس کا شوہر ہے، وہ کہتاہے کہ اگر اس کی ماں(جس نے اسے گود لیا تھا) زندہ ہوتی تو وہ اسے کبھی اپنے اصل والدین تلاش کرنے کی اجازت نہ دیتی۔ اسے ڈر ہوتا کہ یہ واپس نہیں آئے گی تاہم چائی فینگشیا اس خیال کو غلط قراردیتے ہوئے کہنے لگی کہ اس کے گائوں کے دو نوجوانوں نے اپنے اصل والدین کو تلاش کر لیا تھا تاہم انھوں نے اپنے اُن ماں باپ کو نہیں چھوڑا تھا جنھوں نے انھیں گود لیاتھا۔
’’میرا شوہرمجھے کہتا کہ زیادہ امید نہ رکھو کہ وہ تمھیں مل جائیں گے۔ اگرامید بہت بلند ہوگی تو مایوسی اسی قدر گہری ہوگی‘‘۔ تاہم چائی فینگشیا کا ایمان ہے کہ جب تک آپ کسی کو پانے کی بہت زیادہ کوشش نہ کرو، آپ اسے حاصل نہیں کرسکتے۔بہرحال یہ میاں بیوی سفر کے لئے روانہ ہونے لگے تو انھوں نے سوچاتھا کہ اگر اس تقریب میں بھی والدین نہ مل سکے توکم ازکم سیروتفریح ہی ہوجائے گی۔’’اگرہم انھیں تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اچھی بات، ورنہ اس سفر کو بھول جائیں گے‘‘۔
چائی فینگشیا کواس کے والدین نے’جیانگ ین‘ شہر کے علاقے ’قیوقی‘ میں خود سے جدا کیا تھا، وہ تقریب میں شرکت سے پہلے اِس علاقے میں ایسی معلومات حاصل کرنے کے لئے پہنچی جو اسے اپنے والدین تک پہنچے میں معاون ثابت ہو۔ وہاں اس نے جگہ، جگہ کئی لوگوں سے پوچھا۔ ایک ریسٹورنٹ پر پہنچی، اس کے مالک سے بھی پوچھا کہ وہ ایسے لوگوںکو جانتا ہو جنھوں نے1979ء میں اپنے بچوں کو چھوڑا ہو؟ اُس نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔ پھر وہ ’جانگ شو چلڈرنز ویلفئیرانسٹی ٹیوٹ‘ میں گئی لیکن وہاں سے بھی کوئی اتاپتا نہ چلا۔ وہ ایک تھانے میں بھی گئی، وہاں سے پتہ چلا کہ اُس وقت ’لیوہوارانگ‘ یہاں کا تھانے دار تھا، اسے ضرور معلوم ہوگا۔
اس نے پولیس حکام کا شکریہ اداکیا اور پھر ایک دوسری جگہ پہنچی جہاں ایک بزرگ ملے، انھوں نے بتایاکہ یہاں کوئی اور بھی اپنے والدین کا پتہ چلانے کے لئے آیا تھا۔ وہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اُس وقت پولیس نے ایک خاتون کو بچیوں کو دودھ پلانے کے لئے متعین کیا تھا۔ وہ ہر بچی کو دودھ پلانے کے لئے پانچ یوان(چینی کرنسی) لیتی تھی۔ اس کے ہاںکافی بچیوں نے پرورش پائی تھی۔پچاس سے ساٹھ بچیوں کو پولیس نے اس خاتون کے حوالے کیا۔ اس وقت لوگ بچیوں کے بجائے زیادہ تر بچے پیدا کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اگربچیاں پیدا ہو جاتیں تو انھیں مقامی حکومت کے دفتر میں چھوڑ جاتے تھے جبکہ ’یک بچہ پالیسی‘ سے خوفزدہ لوگ بھی ایسا کرتے تھے۔ تھک ہار کر انھیں اُمید کی آخری کرن تقریب کی صورت میں نظر آئی۔
چائی فینگشیا اپنے والدین کے بارے میں ناراضی محسوس کر رہی تھی، تاہم ’لی یانگ گو‘ نے اسے سمجھایا کہ اس کے والدین کے پاس بھی اسے اپنے سے جدا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہوگاکیونکہ لوگوں میں بیٹا پیدا کرنے کی خواہش ہوتی ہے ورنہ خاندان کی لڑی ختم ہو جاتی ہے۔ اگرخاندان میں کوئی مرد نہ ہو تو معاشی طور پر خاندان مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ چائی فینگشیا شہر کے اُن پہلے بچوں میں شامل تھی جنھیں ان کے والدین نے ’یک بچہ پالیسی ‘کی وجہ سے اپنے آپ سے جدا کردیا۔ چائی فینگشیا کہنے لگی:’’ میں نے سنا کہ 1979ء میں 400سے زائد بچے گم ہوگئے تھے۔ ’لی یانگ گو‘ نے کہا کہ نہیں، اتنی تعداد نہیں ہے، اسی قدر مزید بھی ہوں گے لیکن ان کا اندراج نہیں ہوا۔
اگلے روز چائی فینگشیا اپنے شوہر کی معیت میں ’ریلیٹیو سرچنگ والنٹئیرنگ ایسوسی ایشن‘ کی تقریب میں پہنچ گئی۔
اسے اب بھی امید تھی کہ شاید یہاں والدین سے ملاقات ہوجائے۔ہاں! اسے یہ احساس ضرور تھا کہ یہ آخری موقع ہوگا تلاش کا۔ اگر وہ یہاں بھی والدین سے نہ مل سکی تو پھر کبھی اس شہر’جیانگ ین‘ میں دوبارہ نہیں آئے گی۔ یہ احساس اسے اداس کرنے کے لئے کافی تھا۔اس نے ایک بڑا پوسٹر تیار کر رکھا تھا جس میں اپنے بچپن کی تصویر بھی لگارکھی تھی اور حالیہ تصویر بھی۔ساتھ اپنا تعارف بھی لکھ رکھا تھا جس میں اپنی پیدائش کا مہینہ بھی لکھاتھا۔ وہ یہ پوسٹر تقریب میں لہرا رہی تھی، اس کے شوہر نے بھی ایسا ہی پوسٹر بلند کررکھاتھا۔
اچانک سٹیج سے ایک اعلان ہوا، خاتون سٹیج سیکرٹری نے کہا کہ ہمارے پاس ایک اچھی خبر ہے، جسے ہم آپ سے شئیر کرنا چاہتے ہیں۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا یہاں چائی فینگشیا نام کی خاتون موجود ہیں؟چائی فینگشیا کا دل زور سے دھڑکا، ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی، وہ سٹیج پر پہنچی، سٹیج سیکرٹری نے پوچھا کہ جب تم والدین سے جدا ہوئی تھی، اس وقت تمہاری کتنی عمر ہوگی؟
’’شاید میں 20دن کی تھی‘‘۔ سٹیج سیکرٹری نے بتایا:’’ ہم نے آپ کے اصل والدین کو تلاش کرلیا ہے‘‘
’’کیا آپ سنجیدہ ہو؟‘‘ چائی فینگشیا چلائی۔
’’ہاں! ہاں!! پُر سکون رہو، یہ سچ ہے‘‘۔
پھر اسے بتایاگیا کہ آپ کا ڈی این اے 99.99فیصد ’زانگ یومی‘ سے مل گیا ہے،اس کا مطلب ہے کہ وہی آپ کی والدہ ہیں۔آپ کو مبارک ہو۔ اُس کے شوہر نے اُسی لمحہ گھر فون کیا اور کہاکہ ابّا کو بتادو کہ چائی فینگشیا کو والدہ مل گئی ہے۔
چائی فینگشیا کی احساسات ملے جلے تھے۔ ’’میں اپنے والدین کے بغیر 30برس گزارچکی تھی، میں نہیں جانتی تھی کہ اپنے والد، والدہ، بھائی اور بہن کا سامنا کیسے کروں گی؟‘‘
دونوں میاں بیوی ’لی یانگ گو‘ کے ساتھ والدین کے ہاں پہنچے۔ گھر سے باہر ہی چائی فینگشیا کی بہن نے ان کا استقبال کیا، ممکن ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ دونوں بہنیں گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کے روئی ہوں گی، نہیں! ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بہن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن چائی فنگشیا کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔ وہ دو قدم آگے بڑھی، سامنے والد کھڑا تھا، اس کے بعد والدہ، ماں بیٹی نے ایک لمحہ کے لئے ایک دوسرے کو گلے لگانے کی کوشش کی لیکن بس! اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہاں دونوں کے چہرے آنسوئوں سے ضرور بھیگ رہے تھے۔ یہاں گھر میں ان کے بیٹی اور داماد کے اعزاز میں رات کے کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کھانے کی میز پر والد نے بتایا کہ ’یک بچہ پالیسی‘ بہت سخت تھی۔ گائوں کے سات یا آٹھ گھرانوں نے اپنے بچوں کو اسی پالیسی کی وجہ سے اپنے سے جدا کردیا تھا۔ والد نے بتایا کہ میں بیٹا چاہتا تھا۔ اس نے بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ بیٹا ہوتی تو میں کبھی آپ کو اپنے سے جدا نہ کرتا۔ اگر ’یک بچہ پالیسی‘ زیادہ سخت نہ ہوتی تو میں آپ کو اپنے سے کبھی جدا نہ کرتا۔
چائی فنگشیا کی بہن کہنے لگی کہ ’ابا نے بھی آپ کو بہت تلاش کیا، ہم ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتے رہتے اور آپ کے بغیر ہمیشہ اداس رہتے تھے‘۔
پھر اس نے چائی فینگشیا سے پوچھا کہ تمہاری پرورش کیسے ہوئی؟ وہاں غربت تو نہیں تھی؟
’نہیں‘چائی فنگشیا نے جواب دیا۔
’یہ تو اچھی بات ہے‘، بہن سکون کا سانس لیتے ہوئے بولی۔
’میں ایک ہی تھی گھر میں‘ چائی فنگشیا نے بات کو آگے بڑھایا۔ بہن نے بڑی بہن(چائی فنگشیا) کو پھر یقین دلانے کی کوشش کی کہ ’ابا آپ کے بارے میں بہت سوچتے رہتے تھے بالخصوص جب اخبار میں ایسی خبریں پڑھتے کہ گود لئے ہوئے بچے بُری زندگی گزار رہے ہیں۔ اماں ابا آپ کے بارے میں ہی باتیں کرتے رہتے تھے۔ میں آپ کی جگہ پر ہوکر سوچتی ہوں، اور آپ کے احساسات سے واقف ہوں۔ بہرحال ماضی کا قصہ ہے‘۔
’آپ کے ماں باپ نے اصل والدین کو ڈھونڈنے کی اجازت دیدی تھی؟‘ چھوٹی بہن نے پوچھا۔
اس پر بڑی بہن نے بتایا ’دراصل میری ماں کا انتقال ہوگیاتھا، ابا موجود ہیں، انھوں نے ہمیشہ والدین کی تلاش کے لئے میری ہمت بندھائی‘۔
اصل والدین کے ساتھ رات کا کھانا کھاتے ہوئے چائی فنگشیا اپنے باپ کے بارے میں سوچتی رہی، اسے یوں محسوس ہوا جیسے اُن سے ملے ہوئے بہت عرصہ ہوچکاہے ، وہ سوچ رہی تھی کہ معلوم نہیں، ابا نے کھانا کھایاہوگا یا نہیں۔
اصل والدین سے ملنا تو ایک خواب لگتاتھا، بہرحال انھیں تلاش کرنے کے بعد بھی اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، صرف یہ ہوا کہ اس کے رشتہ داوں میں اضافہ ہوگیا۔اس نے صرف یہ دیکھنا تھا کہ اصل والدین سے ملنے کے بعد زندگی کیسی معلوم ہوتی ہے۔ پھر اگلے روز اپنے باپ کے پاس پہنچ گئی، جہاں اس کے ساتھ مل کر باغ سے ناشپاتیاں توڑنے لگی۔ وہ درختوں کے اوپر چڑھتی تھی اور باپ نیچے سے پکی ہوئی ناشپاتیوں کے بارے میں بتاتا، وہ انھیں احتیاط سے توڑ لیتی تھی۔
لی یانگ گو کا کہنا ہے: ’’جب ملک بھر سے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم سخت رنجیدہ ہوتے ہیں، وہ یہاں اپنے والدین کو تلاش کرنے آتے ہیں۔ ہم اس قسم کے پروگرام منعقد کرنے میں خوشی محسوس نہیں کرتے تاہم ہزاروں لوگ ان میں شریک ہوتے ہیں۔ممکن ہے کہ یہ لوگ میرے ہمسائے یا دوست یا پھر رفقائے کار (colleagues) ہوتے۔ تاریخ کا ستم یہ ہے کہ انھیں اپنا آبائی شہر/ علاقہ چھوڑناپڑا۔ ہم سب ایک ہی علاقے کے ہیں۔ میں ایک طرف شرمندہ ہوتاہوں تو دوسری طرف ان کی مدد کرنے کے لئے اپنے اوپر دبائو بھی محسوس کرتاہوں‘‘۔
یاد رہے کہ چین نے 2016ء میں یک بچہ پالیسی ختم کردی۔ اب چینی حکمران ’کیمونسٹ پالیسی‘ نے پورے ملک میں والدین کو دوبچے پیدا کرنے کی اجازت فراہم کردی ۔سبب یہ تھا کہ پورے ملک میں نوجوانوں کی شدیدکمی واقع ہوچکی تھی۔
ایک دوسری کہانی
ایک دوسرے واقعے میں ’لی یانگ گو‘ نے ایک بوڑھے جوڑے کو ان کی اپنی بیٹی تلاش کرنے میں مدد دی تھی۔بیٹی کا نام ’لی جَنگ فِن‘ تھا، وہ اپنے والدین سے ناراض تھی، ان سے ملنے کو تیار نہ تھی۔ ’ہواکسی‘ گائوں میں اس جوڑے کے ہاں1974ء میں پانچویں بچی نے جنم لیا تھا تاہم انھوں نے بچی کو چھوڑ دیا۔ ’لی جَنگ ِفن‘ جوان ہوئی ، اس کی شادی ہوئی، اب وہ اپنے گھر میں خوشی بھری زندگی بسر کر رہی تھی تاہم دوسری طرف اس کے والد کی صحت شدید خراب ہوچکی تھی، وہ تقریباً چارسال سے بستر پر پڑا ہوا تھا۔ اسے بیٹی کو چھوڑنے کا شدید قلق تھا تاہم اسے یہ امید بھی رہی کہ کبھی نہ کبھی وہ اپنی بیٹی کو ڈھونڈنکالے گا، اسے ایک نظر ضرور دیکھے گا، اسے اپنی مجبوریاں بتائے گا، اس سے معافی مانگے گا، وہ بھی سب کچھ بھول کر اس سے لپٹ جائے گی۔ پھر اس کی امید بَرآئی ، ’لی یانگ گو‘ نے اس کی بیٹی کو تلاش کرلیا۔ اس کی تصویر لے کر ’ہواجندی‘( لی جَنگ فن کی والدہ) کے پاس پہنچا، اس نے مسکراتی ہوئی بچی کی تصویر دیکھی تو کسی قدر پہچان لیا، کہنے لگی:’’ یہ مسکراتے ہوئے میری بیٹی جیسی لگتی ہے‘‘۔
گھر بھر کے لوگ پوچھنے لگے کہ کیا وہ ہم سے ملنا نہیں چاہتی؟
’’نہیں، اُس نے ایسا کچھ نہیں کہا، بس! وہ اس لمحے آنہیں سکتی تھی‘‘، لی یانگ گو نے جواب دیا۔
پھر اس نے اپنے لیپ ٹاپ سے لڑکی کی تصویر اس کے بیمار باپ’لومنگشیا‘ کو دکھائی،اور بتایا کہ آپ اسے جلد مل سکو گے، وہ اس قدر بیمار تھا کہ بولنے کے بجائے محض اپنے چہرے کے تاثرات سے مخاطب کی بات کا جواب دیتا تھا۔
اب ’لی یانگ گو‘ 900 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے ’ہندان‘ شہر پہنچا، تاکہ ’لی جُن فِن‘ کو اپنے والدین سے ملنے کے لئے قائل کرے۔اس نے اسے بتایا کہ اس کا ڈی این اے ایک جوڑے سے مل گیا ہے، ظاہر ہے کہ وہی اس کے والدین ہیں۔اس نے استفسار کیا کہ آپ کو کافی دن پہلے بتادیا تھا، تاہم آپ ابھی تک ان سے ملنے نہیں گئیں۔پھر اس نے ’لی جُن فِن ‘ کو راہ فرار دیتے ہوئے کہا:’’ہوسکتاہے کہ آپ اپنے اُن ماں باپ کے بارے میں متفکر ہوں جنھوں نے آپ کو گود لیا‘‘۔
لی جُن فِن کے شوہر نے بتایا کہ اصل میں اس کے ساس اور سُسر بیمار تھے، لیکن اس کی بیوی نے انھیں اپنے اصل والدین کے مل جانے کی خبر اس لئے نہ بتائی کہ ہوسکتاہے، وہ اس خبر کو برداشت نہ کرسکیں گے۔ اس پر ’لی یانگ گو‘ نے کہا: ’’میں جانتاہوں کہ آپ انھیں رنجیدہ نہیں کرنا چاہتی ہوں گی، بہرحال آپ کو اپنے اصل والدین سے ملناضرور چاہئے جبکہ آپ دونوں ایک دوسرے کا اتاپتا معلوم کرچکے ہوں۔ بہتر ہے کہ ان کی زندگی ہی میں ان سے مل لیں ورنہ ساری زندگی آپ کو پچھتاوا رہے گا۔آپ انھیں اپنے آبائی قصبے میں مل سکتی ہیں۔‘‘
چنانچہ ایک روز ’لی جُن فِن‘ اور اس کے شوہر، دونوں ’ہواکسی‘ کی طرف چل دئیے۔ راستے ہی میں لڑکی کے ماں باپ نے فون کر کے اسے تاکید کی کہ ’’وہاں زیادہ دیر تک نہ رہنا، ہم آپ کو مس کریں گے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ جلدی واپس آئیں۔‘‘ بیٹی نے انھیں یقین دلایا ’’ٹھیک ہے، ہم جلدازجلد واپس آنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
وہ وہاں گئی، اور اپنوں سے ملتے ہوئے آنسو نہ روک سکی۔ سب سے پہلے اپنی والدہ کے گلے لگی اور پھر بڑی بہن کے۔ ماں کہنے لگی کہ اگرمجھے پتہ ہوتا کہ اسے اس قدر دور لے جایاجائے گا تو میں اسے کبھی اپنے سے جدا نہ کرتی۔ چاہے مجھے اس کی خاطر گلیوں میں بھیک ہی کیوں نہ مانگنا پڑتی۔ اس لمحہ بڑی بہن کہنے لگی:’’ ماں! اب مت رو، وہ ماضی کا قصہ ہوچکا‘‘۔ پھر لی جُن فِن کو محسوس ہوا کہ چالیس برس بعد، شاید ہم ایک دوسرے کو قبول نہ کرسکیں۔ اس کے شوہر نے بیوی کا دماغ پڑھتے ہوئے کہا:’’ بہتر ہے کہ ہم کل واپس چلے جائیں‘‘۔ چنانچہ وہ زیادہ دنوں تک وہاں نہ رک سکے ، اپنی یادیں بھی شئیر نہ کیں۔ لی جن فن کو یوں محسوس ہوا کہ اس نے وہاں آکر والدین اور دیگرگھر والوں کی زندگی میں خلل ڈالا۔یوں وہ دو دن تک وہاں رہی، اس کے بعد وہ ان سے دوبارہ ملنے کے لئے کبھی واپس نہ آئی۔
لی جُن فِن کو شک تھا کہ اس کے والدین نے اسے ’بیٹی‘ ہونے کی وجہ سے کسی سڑک کے کنارے، کسی نالے میں پھینک دیا ہو۔ اگرایسا نہیں تھا تو اسے حکومت کی ’یک بچہ پالیسی‘ سے ڈر کر کہیں پھینکاہوگا، جیسا بھی تھا، اب وہ ان ماں باپ کو اہمیت دے رہی تھی جنھوں نے اسے پالا پوسا تھا۔
The post چین کی گم شدہ بیٹیاں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » انٹر نیشنل https://ift.tt/2FusD30