سری لنکا جہاں ایک چراغ بجھتاہے تو دنیا میں دو روشن ہوتے ہیں - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

سری لنکا جہاں ایک چراغ بجھتاہے تو دنیا میں دو روشن ہوتے ہیں

دنیا میں متعدد ممالک ہیں جو انسان دوست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، تاہم انسان دوستی کا عملی ثبوت سری لنکا دے رہا ہے، جہاں جب ایک چراغ بجھتا ہے تو دنیا میں دو چراغ روشن ہوتے ہیں۔

سری لنکا کی اکثریت گوتم بدھ کے پیروکاروں کی ہے۔ اُن کاعقیدہ ہے کہ اُن کے مذہبی پیشوا گوتم بدھ نے پچھلے جنم میں ایک نابینا کے لئے اپنی آنکھوں کا عطیہ دیا تھا۔ اسی عقیدے سے روشنی حاصل کی ڈاکٹر ہڈسن سلوا نے اور آنکھوں کے عطیات جمع کرنے والی ایک تنظیم ’’سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی‘‘ قائم کی۔

ڈاکٹر ہڈسن سلوا کی کہانی عجب ہے، وہ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو غربت میں اٹا پڑا تھا، والد فرنیچرکاکام کرتے تھے جن کی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے اور اس انداز میں انسانیت کی خدمت کرے لیکن تعلیمی اخراجات بہت زیادہ تھے ۔ دوسری طرف ہڈسن سلوا کے استاد ان کی ذہانت و قابلیت سے بہت متاثر تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ لڑکا محض کمزور مالی حالت کے سبب اچھا کیرئیر نہ بنا سکے۔ چنانچہ انھوں نے ہڈسن سلوا کا داخلہ اپنے خرچ پر سیلون کی میڈیکل یونیورسٹی میں کروایا ۔

ڈاکٹر ہڈسن سلوا دوران تعلیم اعلیٰ نمبر حاصل کرتے رہے جس کے بعد طب کے میدان میں قدم رکھا ۔ میڈیکل کی تعلیم کے دوران ہی میں وہ ایک دن ’قرنیہ چشم‘ کے مریضوں کے بارے میں پڑھ رہے تھے، وہ ایسے مریضوںکے بارے میں سوچ کر کافی دکھی ہوئے۔ چنانچہ انھوں نے ہم جماعت ساتھیوں کے سامنے منصوبہ پیش کیا کہ اگر سری لنکا میں بدھ مت کے ایک فیصد افراد اپنی آنکھوں کا عطیہ دیں تو دنیا میں بصارت سے محروم بہت سے افراد کی بینائی واپس دلائی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس منصوبے کا تذکرہ کولمبو کے ایک اخبار میں آنکھوں کے بارے میں ایک مضمون میں بھی کیا ۔ یوں سری لنکا کے دارالحکومت کے باسیوں کو آنکھوں کے عطیہ کے بارے میں آشنائی ہوئی ۔

ڈاکٹر ہڈسن سلوا نے 1961میں میڈیکل کی ڈگری حاصل کر لی ۔ اُسی سال جون میں’’ سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھ ڈالی۔ کولمبو اور گردونواح میں رہنے والوں نے اس نوجوان کی کافی ہمت بڑھائی، اور لوگوں نے وصیت کرنا شروع کر دی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی آنکھیں عطیہ کردی جائیں۔آپ کو لکھنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ ان کا دوسرا مضمون بھی کولمبو کے اخبار ’سنڈے لنکا دیپا‘ میں شائع ہوا ۔

آگے بڑھنے سے پہلے سری لنکا کا کچھ تذکرہ پڑھ لیں، ناشپاتی کی شکل کے اس جزیرہ کا رقبہ 65610 مربع کلو میٹر ہے، جزیرے کا دوتہائی حصہ ہموار میدان ہے جبکہ جنوب میں زمین کی سطح بلند ہے جس میں پہاڑی چوٹیاں بھی ہیں۔ سب سے بلند چوٹی 2524 فٹ ہے۔ سری لنکا کے پہاڑ اپنے سبزے اور خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہیں۔

کولمبو سری لنکا کا دارالحکومت ہے، جہاںاوسطاً درجہ حرارت16 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے، ارد گرد پہاڑوں پر دنیا کی عمدہ ترین چائے کے باغات ہیں۔ ٹرینکو مالی مشرقی ساحل پر ایک قدرتی بندرگاہ ہے، اس کا شمار دنیا کی وسیع ترین بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔ سری لنکا سیاحت کے لحاظ سے مقبول ترین جزیرہ ہے۔ یہاں بدھ مت کے قدیم اور تاریخی 16مقدس مقامات موجود ہیں، اسی لئے ہر سال 3 لاکھ سے زائد سیاح سری لنکا کا رخ کرتے ہیں۔

ایک دلچسپ مقام’کوہ آدم‘ ہے جہاں پتھر پر ایک بہت بڑا نقش موجود ہے۔ اس نقش کے بارے میں جو پانچ فٹ لمبا ہے، مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ حضرت آدم ؑ کے قدم کا نشان ہے جب کہ اہل بدھ مت اسے’سری بدھا‘ یعنی گوتم بدھ کے پاؤں کا نشان کہتے ہیں ۔ ہندو عیسائی بھی اسے عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔سری لنکا کی تاریخ 25 صدیاں پرانی ہے۔ اس قدیم ورثے میں ایک قدیم درخت’سری مہابدھی‘ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ درخت اسی ٹہنی سے اگا ہے جس کے سائے میں مہاتمابدھ کو گیان حاصل ہوا تھا ۔ بدھ مت کے پیروکار اس سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ درخت سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہوتا ہے۔ سری لنکا کا دوسرا بڑا شہر کینڈی ہے ۔ یہاں بھی بہت سے تاریخی مقامات ہیں، ان میں سب سے مشہور جگہ مہاتما بدھ کی ہزاروں سال پرانی عبادت گاہ ’ہاتھی دانت کی عبادت گاہ‘ہے ۔

سری لنکا قدیم زمانے میں ’پیروبانے‘کے نام سے موسوم تھا ۔ یہ ایک یونانی لفظ ’کا پر‘ سے نکلا ہے جس کے معنی تانبے کے ہیں ۔ اس زمانے میں یہاں کے باشندوں کا رنگ تانبے جیسا تھا۔ بعد میں عربوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے تو اس جزیرے کو ’سراندیپ‘ کا نام دیا گیا، پھر ’لنکا‘ یا ’سیلون‘ رکھا گیا، جو آزادی کے بعد سری لنکا قرار پایا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً 500 سال قبل جنوبی ہند کے باشندوں نے اسے اپنی نو آبادی بنا لیا تھا ۔

543 قبل مسیح میں یہاں قدیم باشندوں کی مقامی حکومتیں قائم تھیں ۔ یہ لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے بعد میں ان کی اولاد نے بدھ مذہب قبول کر لیا ۔ سری لنکا میں یورپی آباد کاروں کی یلغار 1505ء سے شروع ہوئی، سب سے پہلے پرتگال نے جزیرے کے ایک حصے پر قبضہ کیا، 1658میں ہالینڈ نے اس کے ایک علاقے پر قبضہ کیا مگر 1792میں انگریزوں نے پرتگالیوں کو بے دخل کر کے سری لنکا کو اپنی نو آبادی بنا لیا۔ انہوں نے یہاں قتل و غارت کا سلسلہ کینڈی بادشاہت کے خاتمہ تک جاری رکھا اور ا س کا نام’سیلون‘رکھ دیا۔ 1915ء میں بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا اور یوں 4 فروری 1948کو اس جزیرے کو آزادی ملی۔

مسلمان سری لنکا میں سنہالیوں اور تامل کے بعد تیسری بڑی آبادی ہیں۔ پیغمبر ﷺ کی بعثت سے قبل عرب تاجروں کی سری لنکا میں آمدورفت تھی ۔ یہاں کے ایک مسافر نے خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کر کے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی تک جزیرے کی ساحلی پٹی پر مسلمان کافی تعداد میں آباد ہوگئے تھے جو تجارت کی غرض سے یہاں آیا کرتے تھے۔ تامل نسل کے مسلمان بھی بھارت سے آکر آباد ہوئے۔ جزیرے کی مسلمان آبادی میں ملایا اور برصغیر کے ان علاقوں سے جا کر بسنے والے بھی شامل ہیں جو اب پاکستان کا جزو ہیں۔

اب سری لنکا میں21 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں ۔ یہ اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت ہے۔ اکثریت کا تعلق شافعی مسلک سے ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کولمبو اور کینڈی کے علاقوں میں رہتی ہے، 75 فیصد مسلمان زراعت کے پیشہ سے منسلک ہیں جبکہ 20 فیصد تجارت کرتے ہیں۔ سری لنکا کی پارلیمنٹ میں 22 مسلمان ارکان موجود ہیں جبکہ چار وزیر مسلمان ہیں۔ سری لنکا کے ہر بڑے شہر اور گاؤں جہاںمسلمان آباد ہیں، میں کم از کم ایک مسجد ضرور موجود ہے، یہاں مساجد کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔

سری لنکا میں گیارہ سو سال پرانی مسجد بھی موجود ہے۔ مسلمانوں نے زکوٰۃ اور بیت المال کا نظام بھی متعارف کرایا ہے۔ ملک میں مسلمانوں کے شخصی قوانین نافذ ہیں، قریباً 60 کے قریب شرعی عدالتیں قائم ہیں ۔ قرآن شریف کا ترجمہ سنہالی زبان میں کیا جا چکا ہے، اسی طرح ہر بڑے شہر اور مسلمان آبادی کے دیہاتوں میں قرآنی مدارس بھی قائم ہیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ مسلمان بچیوں کے لئے علیحدہ سرکاری مسلم سکول قائم ہیں، اس کے علاوہ تقریباً 10عربی کالج ہیں جن میں خواتین کا بھی ایک عربی کالج ہے۔

’’سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی‘‘کو قائم ہوئے چند مہینے گزرے کہ کولمبو سے ایک شخص کا عطیہ وصول ہوگیا۔ جب ڈاکٹر ہڈسن کو اس شخص کے ورثاء نے اطلاع دی تو انھوں نے فوراً گھر جا کر اپنے آلات ِ جراحی اور چائے کا تھرماس اٹھایا اور عطیہ وصول کرنے نکل گئے۔ ڈاکٹرہڈسن نے عطیہ شدہ آنکھوں کو محفوظ کر لیا، اسی دن کولمبو میں ایک ماہرسرجن نے قرنیہ کے دو مریضوں کو یہ آنکھیں منتقل کردیں ۔ یوں یہ سلسلہ شروع ہوگیا، لوگوں نے ڈاکٹر ہڈسن سے رابطے شروع کردیئے ۔ اب ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ آنکھوں کے عطیات وصول ہونے لگے لیکن انھیں محفوظ کرنے کے لئے جگہ کم پڑ رہی تھی۔ تنظیم کا دفتر ان کے گھر کے ایک کمرے پر مشتمل تھا اور آنکھوں کے عطیات محفوظ کرنے کے لئے ان کے گھر میں پڑا ایک فریج ہی استعمال ہو رہا تھا۔ اسی کمرے میں فائلوں کا ڈھیر بھی تھا، فون بھی تھا اورفریج بھی ۔

اسی اثنا میں ڈاکٹر سلوا کی شادی ایک ایسی پرجوش لڑکی ’ایرانگی سلوا‘ سے ہوگئی جو ان کے ساتھ مل کر بھرپور جذبے سے کام کرنے لگی ۔ پھر ایک عجب واقعہ پیش آیا، ایک روز ڈاکٹرکے گھر ایک مہمان آیا، گرمی کافی تھی، اس نے ٹھنڈا پانی مانگا تو مسز ایرانگی سلوا نے معذرت کر لی کہ ٹھنڈا پانی نہیں مل سکتا کیوں کہ فریج میں آنکھیں رکھی ہوئی ہیں اور وہ اپنا فریج کھول نہیں سکتیں۔ مہمان نے مزید تفصیل معلوم کی اور بہت متاثر ہوا، اب اس نے فنڈ جمع کرکے ڈاکٹر ہڈسن کو ایک نیا فریج بطور تحفہ پیش کردیا ۔ ان کے ہمسائے میں چند لوگ ایک کلب کے ممبر تھے، انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے انھیں رابطے کے لئے ایک ٹیلکس مشین عطیہ کردی ۔ یوں آنکھوں کے عطیات جمع کرنے اور آگے بھیجنے کا سلسلہ تیز ہوگیا۔

ڈاکٹر ہڈسن کا چرچا آنکھوں کے ماہر ڈاکٹروں میں خوب ہونے لگا۔ سری لنکا اور بیرون ملک سے ماہرین امراض ِ چشم ان سے رابطے کرنے لگے ۔ 25 مئی 1964، وہ دن تھا جب تنظیم نے آنکھوں کا عطیہ سنگاپور کی طرف بھیجا۔ یہ پہلا عطیہ تھا جو سری لنکا سے باہر کسی ملک میں بھیجا گیا۔ اس کے بعد ان کی اہلیہ نے خیال ظاہر کیا کہ گھر کا یہ کمرہ بطور دفتر ناکافی ہے۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی نے اپنے مکان کی بالائی منزل کو آئی بینک کے دفتر میں تبدیل کردیا۔

چھ سال بعد ڈاکٹر ہڈسن کو ایک پیغام ملا کہ ملک کے وزیر اعطم ، جو انتقال کر چکے ہیں، ان کی آنکھیں بطور عطیہ وصول کر لیں۔ ان کے لئے یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہ تھا، وہ فوراً اپنی کار میں اپنے ایک رضا کار کے ساتھ وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر جا پہنچے، ان کی آنکھوں کا عطیہ وصول کرکے جیسے ہی واپس گھر پہنچے تو ان کی بیگم نے بتایا کہ جاپان میں آنکھوں سے محروم دو افراد آنکھوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فوراً فلائٹ کا شیڈول معلوم کیا، اتفاق سے فوراً ایک فلائٹ میں انتظام ہوگیا۔ اس وقت کوئی رضاکار موجود نہ تھا چنانچہ وہ خود ہی کار میں سوار ہوئے اور 20 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے فورا ً ایئرپورٹ پہنچ گئے اور ایئر لنکا کی پرواز کے ذریعہ آنکھوں کی تھرماس کو جاپان روانہ کیا۔

یہ امر دلچسپ ہے کہ آنکھوں کے عطیات دنیا کی تمام پروازیں مفت لے جایا کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر ہڈسن کے جذبے سے متاثر ہوکر دنیا میں مختلف افراد اور تنظیموں نے یہی کام شروع کردیا ہے، وہ ہڈسن سلوا کے اس کام میں معاونت کرتی ہیں۔ تنظیموں میں پاکستان آئی بینک سوسائٹی ، کراچی لائنز کلب، راولپنڈی آئی ڈونرز آرگنائزیشن، کولمبو لائنز کلب، رائل سوسائٹی فار دی بلائنڈ انگلینڈ سمیت کئی تنظیمیں شامل ہیں، سری لنکن حکومت نے آئی بینک کے لئے زمین مفت دی، یوں کولمبو میں آئی بینک کا باقاعدہ آغاز1978میں ہوا جہاں ایک وسیع عمارت کی تعمیر ہوئی۔

ڈاکٹر ہڈسن سلوا کی گراں قدر خدمات کو دیکھتے ہوئے پاکستانی حکومت نے بھی انھیںتمغہ امتیاز عطا کیا ۔ 22اکتوبر1999کو روشنی کا یہ دیا بجھ گیا، ڈاکٹر ہڈسن کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ نے اس تنظیم کی باگ دوڑ سنبھال لی، وہ پوری دنیا سے مکمل رابطے میں ہیں، پاکستان کا بھی ان سے مسلسل رابطہ رہا ، اب یہ تنظیم دنیا کے لگ بھگ 60 ممالک میں تقریباً ایک لاکھ قرنیہ کے عطیات بھیج چکی ہے، جن میں سے 16,000سے زیادہ آنکھیں بطورعطیہ پاکستان پہنچی ہیں۔

ڈاکٹر ہڈسن سلوا کا خواب تھا کہ دنیا میں صرف پانچ کولمبو جیسے’آئی بینک‘ بن جائیں تو دنیا میں قرنیہ سے محروم تمام نابینا افراد کو بینائی دی جا سکتی ہے۔ تقریباً50 سال قبل دیکھا جانے والا یہ خواب ، اب پورا ہونے کو ہے۔ اب دنیا میں ہر ملک کو قرنیہ کے مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے سہولت مہیا ہے۔ تنظیم کے سری لنکا میں لگ بھگ پانچ سو سنٹرز کام کر رہے ہیں۔ جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اس تنظیم کے رضا کار مردہ کے جسم سے آنکھیں حاصل کرکے ہوائی جہاز کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک کو بطور عطیہ روانہ کردیتے ہیں۔

The post سری لنکا جہاں ایک چراغ بجھتاہے تو دنیا میں دو روشن ہوتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » انٹر نیشنل http://bit.ly/2GMYu1h