برفانی تیندوے کا محافظ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

برفانی تیندوے کا محافظ

برفانی تیندوے کے حوالے سے پاکستان کے ممتاز ماہر حیوانیات، ڈاکٹر علی نواز کا کہنا ہے ”اگر ایک بار جنگلی جانور کا چھوٹا بچہ اس کے فطری ماحول سے اٹھایا لیا جائے تو اسے پھر سے فطرت کو لوٹایا نہیں جاسکتا۔”

ان کے مطابق برفانی تیندوے جب اپنی ماؤں سے شکار کرنا سیکھ رہے ہوں، تب ساتھ ساتھ ان کی طاقت اور پٹھوں کی افزائش ہوتی رہتی ہے۔ یہ افزائش صرف جنگل میں ہی ہو پاتی ہے، تاہم جو تیندوا قید میں رہے، اس کی افزائش مختلف انداز میں ہوتی ہے۔

ڈاکٹر نواز جانوروں کو قید میں رکھنے کے قطعی حامی نہیں بلکہ وہ جنگل میں ہی تیندووں کو بچانا چاہتے ہیں۔ انہیں سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن (ایس ایل ایف) کے ساتھ کام کرنے پر وائٹلی فنڈ فار نیچر ایوارڈ، جسے ‘گرین آسکر’ بھی کہتے ہیں، سے نوازا جا چکا۔ یہ ایوارڈ فطرت کے تحفظ کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے پر دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر علی نواز جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن جب انہوں نے جنگلی حیات کی ماحولیات میں پی ایچ ڈی مکمل کی تو انہیں برفانی تیندوے میں گہری دلچسپی پیدا ہوگئی۔برفانی تیندوے تنہائی میں اور چھپ کر رہتے ہیں اس لیے قدرتی ماحول میں بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا سراغ لگانا یا ان کا سروے کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

خیبر پختونخواہ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں پھیلے ہندو کش، ہمالیہ، قراقرم اور پامیر کے پہاڑوں میں ایک اندازے کے مطابق صرف 200 برفانی تیندوے موجود ہیں۔عالمی ادارہ برائے تحفظِ فطرت (آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ برفانی تیندوے کو ‘سب سے زیادہ خطرے کی شکار نسل’ کا درجہ دے چکی ۔شکاری کھال کی غرض سے ان کا شکار کرتے ہیں ۔ چرواہے اکثر مویشیوں کو ان کے حملے سے بچانے کی غرض سے مار دیتے ہیں۔ساتھ ساتھ مارخور کی کم ہوتی تعداد، جو کہ ان تیندووں کا فطری شکار ہوتا ہے، اور ان کے سکڑتے ہوئے قدرتی ماحول، ان سب چیزوں نے مل کر برفانی تیندووں کی نسل کا مستقبل غیر یقینی بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر نواز نے پاکستان میں برفانی تیندوے کو تحفظ دینے کی خاطر 2005 میں سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن قائم کی۔ ریسرچ پر توجہ قائم رکھتے ہوئے نواز نے چترال اور گلگت بلتستان کی دیہی برادریوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے برفانی تیندوے کی نسل بڑھانے کے سلسلے میں عام لوگوں، این جی اوز اور حکومت کے ساتھ مل کر ایک انتتظامی منصوبہ تیار کیا۔

انھوں نے پایا کہ برفانی تیندوے یا بھیڑیے کی وجہ سے ہر خاندان سالانہ اوسطاً تین جانور کھو بیٹھتا ہے۔ جبکہ بیماریوں کی وجہ سے مویشیوں کی اموات کی شرح 5 سے 10 گنا زیادہ تھی۔ انہوں نے دور دراز وادیوں میں مویشیوں کے حفاظتی ٹیکوں اور علاج کی سہولیات متعارف کروا کر مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں رہنے والے لوگ مویشیوں پر برفانی تیندووں کے حملے برداشت کرنا کا حوصلہ پیدا کر سکیں۔

ویکسینیشن کے بعد بیماریوں سے اموات میں 80 فی صد کمی آئی اور کہیں کہیں شرح 100 فی صد بھی رہی۔ نواز کے لیے یہ بڑی تبدیلی تھی۔ 5 جانوروں کو بیماریوں سے بچانے کے بدلے میں کمیونیٹیز برفانی تیندوے کی وجہ سے شکار ہونے والے جانور کے نقصان برداشت کرنے لیے رضامند دکھائی دیں۔

انھوں نے مقامی لوگوں کو باڑے بہتر کرنے میں بھی مدد فراہم کی جہاں وہ اپنے مویشیوںرکھتے تھے۔ روایتی باڑے میں پتھر کی تین فٹ بلند دیواریں ہوتی ہیں۔ جب برفانی تیندوے جیسی بڑی بلی باڑے میں داخل ہو تو وہ تمام جانوروں پر حملہ کر کے مار دیتی ہے، جبکہ وہی تیندوا اگر جنگل میں ہو تو صرف ایک جانور کا ہی شکار کرتا۔ڈاکٹر نواز نے گاؤں والوں کو مالی مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ باڑوں کی دیواروں کو مزید اونچا کیا جاسکے۔ اس سے بھی بہت فائدہ ہوا۔

The post برفانی تیندوے کا محافظ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » دلچسپ و عجیب https://ift.tt/2NiV4ao