’’بریکنگ نیوز‘‘ چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے استعفیٰ دے دیا، ٹی وی پر ٹکرز دیکھ کر پیج میکرز ثاقب اورسعد نے مجھے اس جانب متوجہ کیا، میں نے اپنی نگاہیںکمپیوٹر اسکرین سے ہٹائیں اور ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی کو فون کیا تو انھوں نے بھی خبر کی تصدیق کر دی، اس ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے ساتھ کئی روز سے کرکٹ بورڈ پر چھائی غیریقینی کا خاتمہ ہوگیا۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اب بھی نجم سیٹھی نے فیصلے میں تاخیر برتی، انھیں انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کے ساتھ ہی مستعفی ہو جانا چاہیے تھا، بہرحال محاذ آرائی میں پڑنے اور سر پر برطرفی کی تلوار کے سائے تلے کام کرنے سے یہ فیصلہ بھی بہتر رہا، نجم سیٹھی نے گذشتہ دنوں کراچی میں ملاقات کے دوران ہی مجھے عندیہ دے دیا تھا کہ وہ آئندہ چند روز میں استعفیٰ دے سکتے ہیں، میں نے بھی انھیں یہی رائے دی تھی کہ اب وہ مزید بورڈ میں کام نہیں کرسکتے لہذا خود گھر جانا مناسب ہے، عمران خان نے نجم سیٹھی پر’’35 پنکچر‘‘ کا الزام لگایا اور چیئرمین پی سی بی نے ان کیخلاف مقدمہ کیا۔
ایسے میں دونوں کیسے ساتھ کام کر سکتے تھے؟ اگر وہ استعفیٰ نہیں دیتے تو برطرف کر دیا جاتا اس کے لیے کئی فائلز کھولی جاتیں یوں معاملہ مزید خراب ہوجاتا، عدالتی جنگ اور آئی سی سی سے حکومتی مداخلت کے جواز پر ایکشن لینے کی درخواست کا ماضی میں کیا ہوا یہ بھی نجم سیٹھی بخوبی جانتے تھے لہٰذا اس آپشن کو اپنانے سے گریز کیا۔
پاکستان میں چونکہ سیاسی طور پر چیئرمین پی سی بی کی تقرری ہوتی ہے لہذا اسے حکومت تبدیل ہونے پر جانا بھی پڑتا ہے، چاہے آپ کچھ بھی کر لیں یہ سلسلہ تبدیل نہیں ہوتا، مگر پی سی بی کی سربراہی ایک ایسا چسکا ہے جو ایک بار لگ گیا تو پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا، ہر وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہنا، زبردست لائف اسٹائل، مفت کے غیرملکی دورے کون چھوڑتا ہے، آپ کی دستخط سے سالانہ اربوں روپے نکلوائے جا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح بورڈ کی سربراہی مل جائے، نجم سیٹھی نے بھی یقینی طور پر پوسٹ بچانے کیلیے خوب جدوجہد کی ہوگی مگر کامیابی نہ ملی۔
اب ان کی جگہ عمران خان نے احسان مانی کا تقرر کیا ہے درحقیقت کافی پہلے ہی وہ عندیہ دے چکے تھے کہ اگر وزیر اعظم بنے تو پی سی بی میں ان کو لائیں گے، احسان مانی جب آئی سی سی کے صدر تھے میری تب ان سے پہلی بار بات ہوئی تھی، وہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے قابل انسان ہیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کا تقرر عمران خان نے کیا، ہم جہاں سوچنا ختم کرتے ہیں کرکٹ میںکپتان کی سوچ وہاں سے شروع ہوتی ہے، اگر احسان مانی نے بھی ڈیلیور نہیں کیا تو وزیر اعظم انھیں فارغ کرنے میں بالکل بھی تاخیر نہیں برتیں گے۔
ان کیلیے سب سے پہلا چیلنج پی ایس ایل کی ٹائٹل اسپانسر شپ و دیگر حقوق کے معاہدے ہیں، اگر کم پیسے ملے تو نجم سیٹھی وغیرہ کہیں گے ’’دیکھا ہم گئے تو بورڈ کا کیا حال ہوگیا‘‘ فرنچائزز برسوں سے یہ آس لگائے بیٹھی ہیں کہ نئے کنٹریکٹس سے انھیں سرمایہ کاری کا کچھ حصہ واپس ملے گا، ایسے میں ضروری ہے کہ یہ عمل شفاف انداز میں مکمل کیا جائے، ملک میں بڑی ٹیموں کی آمد، پی ایس ایل کا بہترین انداز میں انعقاد بھی بڑے کام ہیں ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ احسان مانی ماضی میں کہا کرتے تھے کہ بھارت کیخلاف قانونی جنگ کا کوئی فائدہ نہیں مگر پی سی بی اب اس پر کروڑوں روپے خرچ کر چکا۔
اکتوبر میں کیس کا فیصلہ آنے والا ہے، اب نئے چیئرمین کیا موقف اختیار کریں گے؟ پی سی بی میں سابقہ چیئرمین کی قریبی شخصیات بھی آہستہ آہستہ اپنا سامان سمیٹ رہی ہیں، نائلہ بھٹی نے طوفانی رفتار سے ترقی کی منازل طے کیں، ملک میں بی اے پاس کو چند ہزار روپے کی کوئی عام سی ملازمت نہیں ملتی وہ لاکھوں روپے تنخواہ پر پی سی بی جیسے بڑے ادارے کی ڈائریکٹر مارکیٹنگ بن گئیں، اس کی وجہ صرف نجم سیٹھی تھے، کئی دیگر ملازمین بھی میرٹ سے ہٹ کر ترقیاں پاتے رہے، یقیناً ان سب کی فہرست نئے چیئرمین کی ٹیبل پر پہنچ جائے گی، کئی بار برطرف ہونے والے ہارون رشید نے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنزکی نئی تخلیق شدہ پوسٹ پائی تھی، مگر حالات دیکھ کر اسے چھوڑ کرکراچی کی ریجنل اکیڈمی میں تبادلہ کرا لیا،ان کا معاملہ بھی دیکھنا چاہیے۔
حال ہی میں جن ملازمین کی ترقی ہوئی یا تنخواہوں میں اضافہ ہوا احسان مانی اس کا بھی جائزہ لیں، اگر کوئی میرٹ پر پورا اترتا ہے تو بے شک اسے بھاری تنخواہ دیں مگر کسی کو نوازا گیا تو یہ پیسہ کسی کے ذاتی اکاؤنٹ سے نہیں آ رہا اس لیے فوراً فیصلے کو تبدیل کرنا چاہیے، نامزد چیئرمین خود کہہ چکے کہ 900ملازمین بہت زیادہ ہیں دنیا میں شاید ہی کسی کرکٹ بورڈ کا اتنا بڑا اسٹاف ہو، اس میں بھی یقیناً کمی کرنی چاہیے، بھاری تنخواہوں پر ملازم بے کار لوگوں سے چھٹکارا یقینی ہے،اسی کے ساتھ احسان مانی اس بات کو یقینی بنائیں کہ شکیل شیخ جیسے لوگ ان کے دائیں بائیں موجود نہ ہوں ورنہ وہ نقصان اٹھائیں گے، ان کا تقرر وزیر اعظم نے کیا لہذا اگر کوئی ریجنز کی سپورٹ دلا کر قربت پانا چاہے تو اسے قریب نہ پھٹکنے دیں، ریجنز کو عزت ضرور دیں لیکن سپورٹ پانے کیلیے کسی سے بلیک میل نہ ہوں۔
آخر میں نجم سیٹھی کیلیے نیک تمنائیں، انھوں نے بھی اپنے طور پر کرکٹ کی بہتری کیلیے کوششیں کیں، میں نے عروج کے دور میں ان سے ٹکر لی، جواب میں دفتر میں شکایتوں،سوشل میڈیا پر مہم،کھلاڑیوں کے انٹرویوز پر پابندی، بورڈ میں بلیک لسٹ ہونے اور میچز کی ایکریڈیشن نہ دینے تک کی ’’سزائیں‘‘ سہنا پڑیں، البتہ رواں برس پی ایس ایل کے وقت ورکنگ ریلیشن شپ بہتر ہو گئی تھی، ہر عروج کو زوال ہے نجم سیٹھی نے بھی کرکٹ میں بہت عروج دیکھا اور وہ سمجھتے تھے کہ کئی کارنامے انجام دیے لہذا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا مگر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی سب کچھ ہوا ہو گیا،پاکستان کرکٹ میں ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے اور شاید آئندہ بھی ہوتے رہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
The post کرکٹ میں ’’تبدیلی‘‘ آ ہی گئی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » کھیل https://ift.tt/2nZGxlE