’’تم تو واپس پاکستان چلے گئے تھے اب دوبارہ لندن آ گئے، میں نے کہا تھا ناں کہ ان نوجوان کرکٹرز میں بڑا ٹیلنٹ ہے مایوس نہ ہو پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچے گی مگر تم نے میری بات نہ سنی‘‘ جب لندن میں ایک سابق فرسٹ کلاس کرکٹر نے مجھے یہ کہا تو میرے پاس سوائے کھسیانی ہنسی کے کوئی جواب نہیں تھا، میں اپنے آپ کو بڑا طرم خان سمجھتا تھا کہ اتنے سال سے کرکٹ میں ہوں کھیل کی بہت سمجھ ہوگئی ہے۔
مگر یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت میں غلط تھا، یہ گذشتہ سال کی بات ہے جب چیمپئنز ٹرافی کے ابتدائی میچز میں شکست پر میں انگلینڈ سے وطن واپس لوٹ آیا تھا اور پھر فائنل کی کوریج کے لیے چند روز بعد ہی دوبارہ لندن جانا پڑا تھا،میں نے ان سابق کرکٹر سے پوچھا کہ آپ کے یقین کی وجہ کیا تھی تو ان کا جواب تھا کہ ’’جس طرح دنیا میں ہیرے یا دیگر قیمتی چیزوں کے ذخائر موجود ہوتے ہیں پاکستان میں کرکٹ ٹیلنٹ کے بھی ذخائر موجود ہیں، بس انھیں تلاش کرکے تراشنے کی ضرورت ہے، افسوس کہ مناسب سسٹم موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ ٹیلنٹ دریافت ہی نہیں ہو پاتا اور ضائع ہو جاتا ہے‘‘۔
یہ بات مجھے اب اس لیے یاد آئی کہ نئے وزیر اعظم عمران خان ڈومیسٹک کرکٹ نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کا اشارہ دے چکے ہیں، وہ شروع سے ہی ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے حامی نہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، ایسا ہونا چاہیے یا نہیں وہ الگ بحث ہے، مگر کیا ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کا اصل مسئلہ ڈپارٹمنٹ کرکٹ ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے،کم از کم ڈپارٹمنٹس زیادہ سفارشی کھلاڑیوں کو تو نہیں کھلاتے، ریجنز کا تو حال ہی بُرا ہے، ہمیں مسئلے کی جڑ تک پہنچتے ہوئے اسے ختم کرنا ہوگا، شفیق پاپا، ہارون رشید اور خاص طور پر شکیل شیخ ان سب کا ڈومیسٹک کرکٹ کا بیڑا غرق کرنے میں اہم کردار ہے۔
سب سے پہلے ان لوگوں سے چھٹکارہ پانا ہوگا، ہر سال آپ نیا سسٹم لاتے اور پھر خود ہی اگلے برس اسے تبدیل کر دیتے ہیں، پی ایس ایل کامیاب ہوئی توسب اس کے گن گانے لگے، حد تو یہ ہے کہ قائد اعظم ٹرافی کیلیے بھی ڈرافٹ سسٹم لے آئے، مگر اس سال اسے ختم کر کے چار مہمان کھلاڑی شامل کرنے کی اجازت دے دی،سنا ہے کہ ایک ٹیم نے گذشتہ سیزن میں جو گیسٹ پلیئرز تھے انھیں اب مقامی کرکٹر بنا کر شامل کیا اور دیگر شہروں سے چار مزید پلیئرز بھی لے لیے، اگر ڈومیسٹک کرکٹ کو ٹھیک کرنا ہے تو سب سے پہلے اس کے انتظامات ایسے لوگوں کو سونپیں جو خود ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے چلے آئے اور خوبیوں خامیوں سے واقف ہوں، یونس خان، مصباح الحق، راشد لطیف اور ریجنز سے ایماندار اور اچھے لوگوں کو آگے لائیں، انھیں ٹاسک دیں پھر مثبت نتائج سامنے نہ آئیں توپوچھیے گا۔
شکیل شیخ جیسے لوگ جو اپنے ایک رشتہ دار کو کوچ بنانے کے ساتھ تین بیٹوں کو مختلف ٹیموں میں شامل کرا دیتے ہیں وہ کیا ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری لائیں گے؟ پی سی بی میں پہلے گیم ڈیولمپنٹ کا شعبہ ہوتا تھا اب اکیڈمیز یہ کام کرتی ہیں،ان سے پوچھیں آپ نے کتنا ٹیلنٹ دریافت کیا، ان دنوں پی ایس ایل فرنچائز لاہور قلندرز کے ملک بھر میں ٹرائلزجاری ہیں، میری گذشتہ دنوں کوچ عاقب جاوید سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ2لاکھ سے زائد لڑکوں نے رجسٹریشن کرائی، گلگت، مظفر آباد، میرپور، ایبٹ آباد، مردان اورجمرود میں ٹرائلز ہوئے تو وہ ٹیلنٹ دیکھ کر حیران رہ گئے، دراصل ان لوگوں کی حکمت عملی اچھی ہے۔
یہ ٹرائلز میں انضمام الحق، شعیب اختر، فخر زمان اور دیگر بڑے اسٹارز کو ساتھ لے کر گئے، انھیں دیکھ کر بچے بھاگے بھاگے چلے آئے، ان کیلیے یہ بات ہی بہت بڑی تھی کہ اتنے عظیم کھلاڑی ان کے علاقوں میں آئے ہیں، ادھرسے اگر4 لڑکے بھی سامنے آ گئے تو بہت بڑی بات ہو گی، یہ ان کھلاڑیوں سے کوئی فیس نہیں لیتے بلکہ 100کٹ بیگ اور جوگرز بھی ساتھ لے کر گئے تاکہ اگر کسی کے پاس سامان نہ ہو تو اسے دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، عاقب بھائی نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ باصلاحیت پلیئرز کو آسٹریلیا بھیجنے کے ساتھ کچھ ماہانہ رقم بھی دیتے ہیں۔
اسی پروگرام سے بس ڈرائیور کا بیٹا جو خود مکینک تھا عرفان جونیئر، لیاری کے پولیس کانسٹبل کا بیٹا غلام مدثر اور کئی دیگر کھلاڑی بھی سامنے آئے، جب لاہور قلندرز والے ایسا کر سکتے ہیں تو پی سی بی کیوں نہیں کرتا،یقیناً ٹرائلز ہوتے ہیں اور کچھ دن قبل بھی بورڈ نے اعلان کیا تھا مگر کیوں اس میں اتنے زیادہ پلیئرز نہیں آتے؟ وجہ واضح ہے کہ بورڈ صرف رسمی کارروائی پوری کرتا ہے، ٹرائلز لینے جانے والے غیرمعروف کوچز ہوتے ہیں اس لیے بچے اٹرکٹ نہیں ہوتے، پی سی بی کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ بھی تمام کھلاڑیوں کو مفت کٹ بیگ، جوتے اور کھانا فراہم کر سکے مگر ہوتا الٹ ہے وہ اپنے آفیشلز کو لاکھوں روپے اور دیگر فوائد فراہم کرتا ہے۔
بورڈکیلیے تو بہت آسان ہے کہ وہ بہترین انداز میں ٹرائلز کرائے، اس سے نہ صرف کرکٹ میں فائدہ بلکہ دور دراز کے علاقے والوں کو بھی احساس ہو گا کہ انھیں یاد رکھا گیا،یوں ملک کویکجا کرنے میں بھی مزید مدد ملے گی۔ہر ماہ گھر بیٹھے 15،16 لاکھ روپے تنخواہ لینے والے انضمام الحق ان دنوں لاہور قلندرز سے بھی پیسے پکڑ کر ملک کے مختلف شہروں میں کیا نہیں گھوم رہے؟ کیا بورڈ ان سے یہ کام نہیں لے سکتا، ٹھیک ہے انضمام ایسے انسان ہیں جو کروڑ روپے لیے بغیر ریٹائر بھی نہیں ہوتے تو آپ بھی ان کو دے دیں پیسے، پبلسٹی کریں کہ ٹرائلز ہو رہے ہیں۔
پی سی بی کوچز کے ساتھ وہاں انضمام، سرفرازاحمد، شعیب ملک وغیرہ آئیں گے پھر دیکھیں اتنے لڑکے آئیں گے کہ گراؤنڈ میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہو گی، ان میں سے ہی نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا،یوں ہیرے کانوں میں پڑے ضائع نہیں ہوں گے بلکہ انھیں تراش خراش کر بیش قیمت بنایا جا سکے گا۔ ابھی تو صرف ایک مسئلے کی نشاندہی کی اسی طرح کے اور کئی مسائل ہیں جنھیں ختم کر کے ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، اگر ہم صرف نئے ٹیلنٹ کو آنے کا بھرپور موقع فراہم کریں تو ایک چیمپئنز ٹرافی کیا ورلڈ کپ اور کئی دیگر ایونٹس بھی جیت سکتے ہیں، نئے چیئرمین احسان مانی سے درخواست ہے کہ وہ صرف ایسا ماحول بنا دیں جہاں سے باصلاحیت کھلاڑی سامنے آئیں کسی بڑے باپ کے بیٹے کو ہی چانس نہ ملے بلکہ غریب بھی کھیلے، اگر ایسا ہو گیا تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی کرکٹ والوں کو بھی نیا پاکستان مل گیا ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
The post میرٹ لائیں کرکٹ کا ٹیلنٹ بچائیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » کھیل https://ift.tt/2PCAPCx