پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں ترامیم کا مطالبہ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں ترامیم کا مطالبہ

کراچی: افغان ٹرانزٹ ٹریڈسے منسلک بیوپاریوں نے نامزد وزیراعظم عمران خان سے پاک افغان تعلقات اورتجارتی حجم بڑھانے کے لیے تجویز دی ہے کہ وہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں مطلوبہ ترامیم کریں جس میں لوزکنٹینر کارگو (ایل سی ایل)کی بھی اجازت دی جائے۔

ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک پاکستانی تاجروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے ایران پر یک طرفہ اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں وہ ٹرانزٹ کارگو جو گزشتہ 5 سال میں کراچی بن قاسم اور گوادر بندرگاہوں سے بندرعباس اور چابہار منتقل ہوچکا تھا وہ اب دوبارہ پاکستانی بندرگاہوں کا رخ کررہے ہیں لہزا تحریک انصاف کی نئی آنے والی حکومت کو چاہیے کہ وہ بدلتے ہوئے خارجی ماحول کے تناظر میں فوری اور انقلابی نوعیت کے فیصلے کرے۔

فرنٹیئر کسٹمز ایجنٹس گروپ خیبر پختونخوا کے صدر ضیا الحق سرحدی نے نامزد وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری، باہمی تجارت کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کرنے کے اعلان کاخیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں مشکلات اور دونوں جانب کی حکومتوں کی بعض غلط پالیسیوں کی وجہ سے تجارتی حجم جوکہ 2.5 ارب ڈالرتھاگھٹ کر 1ارب ڈالرپر آ گیا ہے۔

تجارتی حجم کو بڑھانے کے لیے عمران خان کے اعلان کو عملی جامع پہنانے سے پاکستان اور افغانستان کی معیشت کو فروغ ملے گا اور اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب 8 سال سے استعمال میں نہ لائی جانے والی چین سے درآمدہ ریلوے بوگیوں کو فوری طور پر استعمال میں لایا جائے اور ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں مطلوبہ ترامیم کرکے ٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ حائل رکاوٹوں اور تحفظات کو دور کیاجائے۔

انہوں نے بتایا کہ 2010 سے قبل تک طورخم اور چمن سرحدوں کے ذریعے مجموعی طور پر300 مال بردار ٹرکس ٹرانزٹ کنسائمنٹس افغانستان لے کر جاتے تھے۔ نئی وفاقی حکومت کوباہمی اعتماد کی فضا پیدا کرکے افغانستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے خارجہ اور تجارتی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت کی استعداد سالانہ 5 ارب ڈالر سے زائد ہے اور بعض اہم نوعیت کی ترامیم کے ساتھ مجوزہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں پاکستانی بندرگاہوں سے منتقل شدہ70 فیصد کاروبارنہ صرف دوبارہ آسکتا ہے بلکہ اس نمایاں اضافے کے امکانات بھی روشن ہوسکتے ہیں۔

دونوں ممالک کی حکومتوں کو چاہیے کہ باہمی تجارت کے معاملات کو سیاسی اختلافات سے بالائے طاق رکھے تاکہ دونوں ملکوں کی عوام خوشگوار تجارتی سرگرمیوں کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں اور پاکستان وافغانستان کے تاجروں کو بھی رکاوٹوں سے پاک کاروباری مواقع میسر آئیں۔

موثر اقدامات کی بدولت پاکستان کی برآمدات کے اعداوشمار پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں جبکہ افغانستان کے راستے وسط ایشیا کی ریاستوں میں پاکستانی مصنوعات کی برآمدات بڑھ سکیں گی۔ انہوں نے نئی آنے والی حکومت کوتجویز دی کہ وہ حکومتی ذمے داریاں سنبھالتے ہی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے میں پائی جانے والی مشکلات کو دور کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح اجلاس طلب کرے جس میں ٹرانزٹ کاروبار سے منسلک اہم اسٹیک ہولڈرز اور تجارتی ایوانوں کے نمائندوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے انقلابی نوعیت کے اقدامات کا اعلان کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ امریکا ایران چپقلش، ایران پر امریکا کی ایما پرنئی اقتصادی پابندیوں کے باعث شپینگ کمپنیوں نے افغان تاجروں کوایرانی بندرگاہوں پر مال کی ترسیل سے انکارکردیا ہے جس کی وجہ سے افغان تاجروں کا رخ اب پاکستانی بندرگاہوں کی جانب مڑگیا ہے جس سے مکمل استفادے کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈکے معاہدے پر نظر ثانی کی جائے اورٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ میں نشاندہی شدہ مشکلات دور کی جائیں۔

 

The post پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں ترامیم کا مطالبہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » بزنس https://ift.tt/2KSZaAB