ٹوکیو: ناروے سے جاپان اور آرکٹک سے لندن تک بلند درجہ حرارت کے کئی ریکارڈ قائم ہوئے ہیں، اسی طرح کئی جگہوں پر جنگلات میں آتشزدگی سے شدید نقصان ہوا ہے جسے ماہرین نے آب و ہوا میں تبدیلی یا کلائمیٹ چینج کی شدید شکل قرار دیا ہے۔
صرف یونان میں ہی شدید گرمی اور جنگلات میں آگ بھڑکنے سے 82 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اگرچہ یونان میں گرم موسم معمول کی بات ہے لیکن شمالی یورپ میں گرمی کی شدت سے ماہرینِ موسمیات اور دیگر سائنس دان بہت پریشان ہیں۔ اسی بنا پر عالمی موسمیاتی تنظیم ( ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ اوائل اگست میں آئرلینڈ سے اسکنڈے نیویا تک درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوگا اور بالٹک ممالک میں بھی گرمی کی لہر غیر معمولی ہوگی۔
سویڈن میں جتنی گرمی نوٹ کی گئی وہ گزشتہ 250 برس میں نہیں دیکھی گئی اور وہاں رینڈیئر (ہرن) چرانے والے دیہاتیوں نے خشک سالی سے مرنے والے جانوروں سے پریشانی ظاہر کی ہے اور ساتھ ہی وہاں بھی گرمی سے جنگلات میں آگ بھڑکنے کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔
دوسری طرف جاپان میں گرمی کی لہر نے درجنوں افراد کی جان لے لی اور یہ ہیٹ ویو تواتر سے کئی روز تک جاری رہی جبکہ کیلی فورنیا میں چائنو کے مقام پر درجہ حرارت 48.9 درجے سینٹی گریڈ تک جاپہنچا۔
جرمنی میں پوسٹڈام انسٹی ٹیوٹ فار کلائمیٹ چینج کے پروفیسر اینڈرز لیورمان نے کہا ہے کہ ’ عموماً ہم سیارے کے کسی ایک حصے پر گرمی کی لہر دیکھتے ہیں لیکن اب پورے شمالی نصف کرے پر اس کا اثر دیکھا گیا اور یہ خطہ بہت گرم تھا‘۔
دوسری جانب جب ماہرین سے بات کی گئی کہ آیا یہ تازہ صورتحال کلائمیٹ چینج کی کوئی شکل ہے؟ تو اس پر ماہرین نے ملا جلا ردِ عمل ظاہر کیا۔ مثلاً فرانس کے ماہر جین ہوزل نے کہا کہ ہر واقعے کو آب و ہوا میں تبدیلی قرار دینا بہت مشکل ہے۔
عالمی تنظیم برائے موسمیات کی نائب سیکریٹری جنرل ایلینا ماننکووا نے کہا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ موسمیاتی شدت کے واقعات گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
دسمبر میں امریکی محکمہ موسمیات کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016ء میں ایشیا اور پوری دنیا میں گرمی کی لہر گلوبل وارمنگ کا شاخسانہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی کی معلومہ تاریخ میں گزشتہ تین سال گرم ترین برس قرار پائے ہیں اور اگر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع ہونے کی شرح اسی طرح برقرار رہی تو یہ سلسلہ مزید بھیانک ہوجائے گا۔
اسی طرح ماہرین نے یورپ میں گرمی کی حالیہ لہر کو بھی موسمیاتی تبدیلیاں قراردیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل کلائمیٹ چینج پر بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی ) نے 2012ء کی رپورٹ میں کہا تھا کہ اگلے عشرے میں موسمیاتی شدت کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوسکتے ہیں۔
The post آرکٹک سے جاپان تک گرمی کی شدید لہر سے ماہرین پریشان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » سائنس/ٹیکنالوجی https://ift.tt/2mTxbXK