فولاد کا استعمال، کتنا اور کیسے؟ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

فولاد کا استعمال، کتنا اور کیسے؟

ایک میڈیکل پروفیشنل کی حیثیت سے ہم عموماً زرد رنگت اور اکھڑے سانسوں والے مریض دیکھتے ہیں جو خون کی شدیدکمی کا شکار ہوتے ہیں، لامحالہ پہلی دوا جو ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ  فولاد کا کوئی نہ کوئی سپلیمنٹ ہوتا ہے لیکن جو سوال مجھے ہمیشہ سب سے زیادہ الجھاتا رہا ہے کہ کس قسم کا فولاد تجویز کیا جائے اور کس بنیاد پر تجویزکیا جائے؟ کھانے والی ادویات یا رگ پٹھے میں لگایا جانے والا فولادی ٹیکہ یا سیدھے سبھاؤ خون ہی چڑھا دیا جائے۔

میں نے پریکٹس کے تمام برسوں میں ایسے مریض دیکھے جو مقامی ڈاکٹروں /اتائی پریکٹیشنرز اور دائیوں کی تجویز کردہ فولادی دواکھانے یا فولاد کے ٹیکے، ڈرپیں لگوانے کے باوجود خون کی کمی کا شکار تھے۔ عام طور پر فولاد تجویز کرنے کا معیار ہیموگلوبن نامی مادہ کی مقدار چیک کرنا ہے۔ ہیموگلوبن کم ہو تو فولاد لکھ دیا جاتا ہے۔ بہت عرصہ تک میں بھی اس طریقہ کار سے اس لیے متفق تھی کہ ’’اپنے بڑوں کو یہی کرتے پایا تھا‘‘، حالانکہ صرف روایات ہی نہیں بلکہ طب میں بھی آنکھیں بند کرکے بڑوں کے طریق پر چلنا غلط طرز عمل ہے۔ میں اپنے مریضوں کو فولاد تجویز کرنے کے بعد (مخصوص وقفے سے جو عموماً ایک ماہ ہوتا تھا) ہیموگلوبن لیول%hb چیک کروایا کرتی تھی،بعض کا لیول بہتر ہو جاتا اور بعض کا نہیں بلکہ چند ایک کا تو مزید کم ہوگیا تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ اس امر نے مجھے اورل / آئی وی فولاد یا انتقال خون کے لیے کوئی اور بہتر معیار تلاش کرنے پر اکسایا۔

خون کا مکمل معائینہ (کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ) اور سیرم فیریٹن لیول (serum ferritin) مریض کی کیفیت اور ضرورت کے متعلق مناسب رائے قائم کرنے میں کافی ممد ثابت ہوتا ہے۔ اسی خیال نے بلڈ رپورٹ میں موجود مختلف لیولز (blood indices  )کا آئرن ڈیفیشنسی اینیمیا (فولاد کی کمی کے باعث ہونے والا اینیمیا)کے مختلف درجات اور اس کے لیے مناسب ترین فولاد کے انتخاب کی بابت ایک ٹیبل بنانے کی راہ سجھائی۔ اس ٹیبل کا نام میں نے اپنے پیارے مہربان والد، مرحوم عبد الحمید خان درانی کے نام پر رکھا ہے۔ اسے میں مفاد عامہ کے لیے شائع کر رہی ہوں تاکہ میرے اور والدین کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہو۔

میں آئے روز فولاد کا غیرموزوں استعمال دیکھتی ہوں خصوصاً وریدی فولاد (I v iron) کا خون کی کمی کے ابتدائی دور میں استعمال جس کی بنیاد بننے والا ٹیسٹ صرف ایچ بی یعنی ہیموگلوبن ہے۔ کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ کروایا نہیں جاتا یا اسے سمجھنااور رپورٹ میں موجود مختلف خون کے خلیوں کی کیفیات کو ایک دوسرے کے ساتھ منطبق کرکے تشخیص تک پہنچنا ہر کسی کو نہیں آتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے دل کی ای سی جی میں سینے اور ہاتھوں پیروں پر لگائی جانے والی مختلف لیڈز کی بنائی آڑھی ترچھی لکیریں دل کے مختلف حصوں کی خبر دیتی ہیں اور جب مختلف لیڈز کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر پڑھا جائے تو ہی بہترین تشخیص ممکن ہوتی ہے۔ صرف ایک لیڈ لگا کر دل کے مرض کی تشخیص یا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ اکیلا لو ہیموگلوبن لیول ٹیسٹ کرنا سیرم فیرٹن یا خون کے سرخ خلیے کی شکل و صورت ( RBC MORPHOLOGY ) کو پرکھے بغیررپورٹ نامکمل ہے۔

سیرم فیرٹن وریدی فولاد کے دیے جانے یا نہ دیے جانے کے لیے بنیادی فیصلہ کن ٹیسٹ ہونا چاہیے کیونکہ چند اینیمیا ایسے بھی ہیں جن میں ایچ بی کی کمی یا خون کے سرخ خلیوں کے سائز میں کمی کی وجہ فولاد کا کم ہونا نہیں بلکہ فولاد کو درست طریقے سے استعمال نہ کر پانا ہوتا ہے۔ مثلاً تھیلیسیمیا، پرانی بیماری کی وجہ سے خون کی کمی ، لیڈ پوائزننگ یا سڈیروبلاسٹک اینیمیا ۔ عموماً میں اپنی مریض خواتین کو اس کی مثال ایسے دیتی ہوں کہ گھر میں آٹا موجود ہو لیکن گھر کی خاتون کو آٹا گوندھنا، بیلنا اور روٹی پکانا نہ آتا ہو ایسی صورت میں وہ ٹیڑھی میڑھی،چھوٹی موٹی،کچی پکی ٹکیہ پکا سکتی ہے لیکن گھربھر کی ضرورت کی روٹیاں فراہم نہیں کرسکتی، کیونکہ اسے پانچ چھ روٹیوں کی بجائے بیس، پچیس ٹکیاں بنانا پڑیںگی۔ یہی تھیلیسیمیا میں ہوتا ہے کہ جسم میں فولاد کی کمی نہیں ہوتی لیکن جسم اس فولاد کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا  لہذا تھیلیسیمیا کے مریض میں نارمل سے چھوٹے سائز کے سرخ خلیوں کی بھرمار ہوجاتی ہے تاکہ جسم کو مناسب مقدار میں ہیموگلوبن اور آکسیجن مل سکے۔ یہی صورتحال پرانی بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اینیمیا میں دکھائی دیتی ہے۔ تھیلیسیمیا میں وریدی فولاد  دیا جانا زہر کی مانند ہے کیونکہ جسم فولاد کو استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ اس صورتحال میں یہ اضافی آئرن جسم کے مختلف اہم اعضا مثلاً جگر میں جمع ہوکر جسم پر بُرے اثرات مرتب کرے گا۔

کچھ مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں اینیمیا کی وجہ، فولاد کی کمی نہیں بلکہ ان مریضوں میں خون کے خلیے عام نارمل سائز سے بڑے ہوتے ہیں( increased MCV>96) مثلاً فولک ایسڈ یا وٹامن بی 12 کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والا اینیمیا۔ ایسے کیسز میں خوراک کے ذریعے خون بڑھانے والی ایسی ادویات دی جانی چاہئیں جن میں فولاد کے ساتھ ساتھ وٹامن بی 12 اور فولک ایسڈ شامل ہو ، یہ ادویات بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں لیکن فولاد کے وریدی ٹیکے یا ڈرپ ایسے کیس میں غیر ضروری بلکہ بیکار ہوتے ہیں اور مہنگے ہونے کی وجہ سے مریض کی جیب پر بوجھ بھی بنتے ہیں، ان سے پرہیزکیجیے۔

مندرجہ ذیل فولادی پریپیریشنز میں سے دوا تجویز کی جانی چاہئیں:

1۔ اورل آئرن پریپیریشنز (منہ /خوراک کے ذریعے دیا جانے والا فولاد)

غور کیجیے کہ مریض کس قسم کے فولاد کو بہتر طور پر پابندی اور پسندیدگی سے بآسانی لے سکتا ہے۔ فیرس سلفیٹ 325 ملی گرام دن میں تین دفعہ  جو 180 ملی گرام آئرن روزانہ مہیا کرتا ہے جس میں سے 10 ملی گرام آئرن جذب ہو جاتا ہے۔ یہ سب سے بہتر طریقہ علاج ہے۔ کم خوراک سے آغاز کرتے ہوئے بتدریج دوا کی خوراک بڑھائی جاسکتی ہے۔ دیگر فولادی اورل ادویات بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جن میں سلفیٹ، گلوکونیٹ یا فیوماریٹ نمکیات 60 سے 90 ملی گرام ایلیمینٹل آئرن کے ساتھ ایک جوان العمر مریض کی ایک خوراک میں دیے جاتے ہیں۔

2۔پار اینٹرل آئرن پریپیریشنز، قدیم و جدید:

پی ای فولاد میں فولاد کو کاربوہائیڈریٹ کے حفاظتی غلاف سے کور کردیا جاتا ہے۔ قدیم پی ای ادویات مثلا آئرن ڈیکسٹران پریشان کن مسائل پیدا کرتی تھیں۔ مثلاً انہیں ڈرپ میں دینے کے لیے متعدد گھنٹوں پر مشتمل طویل دورانیہ درکار ہوتا تھا ، مختلف جوڑوں میں درد اور الرجک ری ایکشن عام تھے جو مہلک ہوسکتے تھے۔ موجودہ پی ای ادویات محفوظ ہیں اور پانچ منٹ سے کم وقت میں بھی دی جاسکتی ہیں۔آئرن آکسائڈ فیروماکسیٹول (FEROMOXYTOL) ایک ایسا آئرن آکسائیڈ ہے جسے’’ پولی گلوکوز ساربیٹول کاربوکسی میتھائل ایتھر‘‘ سے کوٹ کیا گیا ہے۔یہ 510 ملی گرام فی 20 سیکنڈ کی بولس ڈوز میں بنا کسی ٹیسٹ ڈوز کے دیا جا سکتا ہے۔

آئرن تھراپی کے مقاصد

٭ اورل آئرن تھراپی کے مقاصد:  علاج کی کامیابی کے لیے ایک مناسب رزلٹ یہ ہوگا کہ 3 ہفتے کے علاج کے بعد ہیمیٹو کرٹ نصف تک بہتری کی جانب واپس آ جائیں اور 3 ماہ میں بیس لائن تک مکمل واپسی ہوجائے۔آئرن تھراپی ٹیسٹ کے نارمل ہونے کے بعد بھی 3 سے 6 ماہ تک جاری رہنی چاہیے تاکہ جسم کا گم گشتہ فولاد کا ذخیرہ دوبارہ بھرا جاسکے۔ ہیموگلوبن کے بڑھنے کی رفتار ایک ہفتے میں ایک گرام فی ڈیسی لٹر ہونی چاہیے۔

٭ پاراینٹرل /انجکشن تھراپی کے مقاصد:

جسمانی فولاد کی کمی ( آئرن ڈیفیسٹ ) کا حساب لگا کر اتنا ذخیرہء  فولاد  دوبارہ بھرنا،آئرن کی کمی سے پیدا شدہ اینیمیا کو کم وقت میں درست کرنا خصوصاً مندرجہ ذیل صورتحال میں:

٭ اگر مریض خوراک کے ذریعے فولاد برداشت نہیں کرسکتا،

٭ خوراک کے ذریعے فولاد مفیدثابت نہ ہونا،

٭ آنتوں کی سوزش مثلا ًآئی بی ایس،

٭ خون کا مسلسل ضیاع جو اورل آئرن تھراپی سے درست نہ کیا جا سکتا ہو۔ مثلا ًڈائلیسز کے مریضوں میں۔

آئرن ڈیفیسٹ : فولاد کی کمی کو کیلکیولیٹ کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ’ خون کے سرخ خلیوں کا حجم نارمل سے کتنا کم ہے‘۔ یادرہے کہ

1۔ایک ملی لیٹر سرخ خون کے خلیوں میں ایک ملی گرام آئرن ہوتا ہے۔

2۔ ٹوٹل جسمانی آئرن کی رینج 2 سے 4 گرام ہوتی ہے۔

مرد میں تقریباً 50 ملی گرام فی کلوگرام، خاتون میں تقریباً 35 ملی گرام فی کلوگرام

زیادہ تر (70 سے95 فیصد )جسمانی آئرن ہیموگلوبن کی شکل میں خون کے بہاؤ میں دوڑتے سرخ خلیوں میں پایا جاتا ہے۔

مردوں میں سرخ خلیے کا حجم 30 ملی گرام فی کلوگرام ہوتا ہے جبکہ خواتین میں سرخ خلیے کا حجم 27 ملی گرام فی کلو گرام ہوتا ہے۔ پس ایک 50 کلوگرام کی عورت جس کی ایچ بی 9 گرام /ڈیسی لٹر ہو یعنی نارمل کا پچھتر فیصد جسمانی فولاد رکھتی ہو اس کا آئرن ڈیفیسٹ اس طرح کیلکیولیٹ کیا جائے گا:

آئرن ڈیفیسٹ (خاتون) = 0.25×27mg/50kg=337.5 mg

ٹوٹل پاراینٹرل /انجکشن کے ذریعے دی جانے والی خوراک آئرن ڈیفیسٹ + عموماً ایک اضافی گرام آئرن کے حساب سے دیا جاتا ہے تاکہ جسمانی ذخیرہ  فولاد کو بھی بھرا جا سکے۔ پس اس کیس میں

337.5mg +1gm

=1.337gm

=1.4gm (CMDT 2014)

فولاد کی کمی کے شکار مریض کو اسپیشلسٹ ہیماٹولوجسٹ کے پاس بھیجنے کی عموماً ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ بیشتر کیس سیدھے سادے ہوتے ہیں جو اورل آئرن تھراپی سے قابل علاج ہوتے ہیں۔ جب اورل تھیراپی کا مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو تو انجکشن تھراپی آزمائی جاسکتی ہے۔

فولاد کب زہر بنتا ہے؟

1۔ 30 ملی گرام فی کلوگرام سے کم مقدار میں ایلیمینٹل آئرن کھا لینے کی صورت میں معمولی گیسٹرو انٹسٹائنل یعنی معدے اور انتوں کے سائڈ ایفیکٹس ظاہر ہوتے ہیں۔

2۔ 40 سے60 ملی گرام فی کلو گرام آئرن لینے سے سادی یا خون کی الٹیاں ، پتلے پاخانے، بلڈ پریشر کا کم ہونا اور جسم میں تیزاب کا لیول بڑھ سکتا ہے۔

3۔ بلڈ پریشر کی شدید کمی سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

4۔ خون میں سیرم آئرن لیول 350 سے 500 مائیکروگرام فی ڈیسی لٹر خطرناک مانے جاتے ہیں اور 1000 مائیکروگرام فی ڈیسی لٹر شدید زہریلے سمجھے جاتے ہیں۔

فولاد اوور ڈوز کا علاج: ایمرجنسی علاج:1۔ کم بلڈپریشر تیزی سے بڑھائیں۔0.9 فیصد سیلائن یا رنگر لیکٹیٹ استعمال کیجیے،2۔ معدہ اور آنتیں واش کیجیے  تاکہ غیر جذب شدہ فولاد جسم سے خارج ہو جائے، 3۔ ایکٹیویٹڈ چارکول فولاد کے لیے تو فائدہ مند نہیں لیکن دیگر اجزاء کے زہریلے اثرات سے بچاسکتا ہے۔

اسپیشلائزڈ علاج: ڈی فیروکزامین ایک سیلیکٹو آئرن چیلیٹر ہے لیکن منہ کے ذریعے اس کا استعمال مفید نہیں،جو مریض واضح طور پر آئرن پوائزننگ کا شکار ہوں خصوصاً جن کا سیرم آئرن لیول 800 سے 1000 مائیکروگرام فی ڈیسی لٹر تک پہنچا ہو ،انہیں 10 سے 15 ملی گرام فی کلوگرام فی گھنٹہ کی رفتار سے انفیوژن دیجیے۔ اس سے زیادہ خوراک 40 سے50 ملی گرام فی کلوگرام انتہائی شدید آئرن پوائزننگ میں کامیابی سے استعمال کی جا چکی ہے۔

ڈیفیروکزامین تھراپی کے سائیڈ ایفیکٹس

٭بلڈ پریشر میں کمی

آئرن ڈیفیروکسامین کمپلیکس پیشاب کے ذریعے خارج ہو گا اور اسے ایک مخصوص ’ون روز‘(Vin-rose)” شکل دیدے گا۔

ڈیفیروکزامین، آئرن اوور ڈوز کا شکار حاملہ عورت کے لیے بھی محفوظ ہے۔

طویل مدتی ڈیفیروکزامین انفیوژن (36سے 48 گھنٹے ) سانس کے اچانک اکھڑنے (ARDS) کی بیماری کا باعث بن سکتی ہے۔

آخری بات: 1۔ یہ سنہرا  اصول پلے باندھ لیجیے کہ سیرم فیرٹن لیول، وریدی فولاد کے استعمال سے پہلے بہرصورت کروایا جائے، 2۔ فولاد کی ڈرپ /ٹیکے تجویز کرنے سے پہلے آئرن ڈیفیسٹ کا تعین ضرور کیجیے، 3۔اورل ائرن کو انجکشن تھراپی کی نسبت سستا ہونے کی فوقیت حاصل ہے، 4۔ انجکشن/وریدی علاج صرف اورل فولاد کی عدم برداشت یا فوری آئرن اسٹور بڑھانے کے لیے کیا جائے، 5۔ کمپلیٹ بلڈ کاونٹ رپورٹ کی اہمیت سمجھیے اور اسے پڑھنا سیکھیے، 6۔ وریدی /انجکشن کے ذریعے فولاد تھیراپی کرنے سے پہلے تھیلیسیمیا کی عدم موجودگی کا تعین ازبس ضروری ہے،7۔ ہر خون کی کمی کا مطلب ’’فولاد کی کمی‘‘ نہیں، 8۔ اینیمیا کی خاص وجہ کا خاص علاج کیجیے۔ یعنی فولاد کی کمی میں فولاد دیجیے ، وٹامن بی 12 یا فولک ایسڈ کی کمی میں متعلقہ سپلیمنٹ دیں ، تھیلیسیمیا میں خون یا اورل آئرن دیجیے ، لیڈ پوائزننگ کا علاج کیجیے اور پرانی بیماری سے پیدا شدہ اینیمیا بیماری سے صحت یاب ہونے سے مشروط ہے ۔

The post فولاد کا استعمال، کتنا اور کیسے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/2JIKoRl