لندن: پوری دنیا میں ہرپل بدلتے جراثیم کے سامنے ہماری طاقتور ترین اینٹی بایوٹک دوائیں بھی ناکارہ ہورہی ہیں اور اس عمل کو جراثیم کی اینٹی بیکٹیریا کے خلاف مزاحمت کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم سمندر کی گہرائیوں میں موذی اور ڈھیٹ جراثیم کا علاج آبی اسفنج اور پودوں کی صورت میں موجود ہے۔
ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ سمندر کی گہرائی میں موجود اسفنج کی تقریباً 25 اقسام ہیں جن میں ’مفید بیکٹیریا‘ پائے جاتے ہیں۔ یہ میتھی سیلین ریزسٹنٹ اسٹیفائیلوکوکس آریئس (ایم آرایس اے) کہلانے والے جراثیم کا علاج بھی کرسکتے ہیں جو اب تک کئی امراض کی وجہ بنے ہوئے ہیں اور ان پر کوئی دوا اثر نہیں کرپارہی۔ اسی بنا پر ایم آر ایس اے کو ’سپر بگ‘ (Super Bug) بھی کہا جاتا ہے۔
ماہرین نے گزشتہ 30 برس میں خلیجِ میکسیکو، امریکا، کریبی جزائر اور افریقی سمندروں میں ایسے دو درجن سے زائد اسفنج ڈھونڈے ہیں جن میں 1000 اقسام کے مفید بیکٹیریا موجود ہیں، انہیں تجربہ گاہ میں بنایا جاسکتا ہے اور وہ لاعلاج بیماریوں میں شفا دے سکتے ہیں۔
ماہرین نے پہلے مرحلے میں 50 اسفنج کو اسپتالوں سے وابستہ مشہور جراثیم اور انفیکشن کے مقابلے میں آزمایا تو معلوم ہوا کہ یہ کئی اقسام کے جراثیم سے لڑسکتے ہیں اور ایک اسفنج سی ڈیفائکل کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رپورٹ کے خالق ڈاکٹر پیٹر مک کارتھی نے بتایا کہ سمندری فطری مصنوعات سے نئی اینٹی بایوٹک ادویہ بنانے میں بہت مدد مل سکتی ہے اور ’اس ضمن میں ہم بہت سے نئے کیمیکلز شناخت کررہے ہیں جن سے نئی اینٹی بایوٹک ادویہ بنانے میں مدد ملے گی۔‘
اس وقت اینٹی بایوٹک دوائیں تیزی سے بدلتے ہوئے جراثیم کے سامنے بے بس ہیں جس کی ایک مثال ٹی بی کی دوائیں ہیں جو جراثیم کو دور کرنے کی صلاحیت کھورہی ہیں اور لوگ تیزی سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ 2050 تک پوری دنیا میں اینٹی بایوٹکس کا یہ مسئلہ امراض سے متاثر ہونے کے ایک نئے بحران کو جنم دے گا اور لاکھوں افراد موت کے منہ میں جانے لگیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین فطرت کے کارخانے میں نئی اینٹی بایوٹکس کےلیے ہر شئے کو آزما رہے ہیں۔
The post کیا سمندری پودے سخت جان بیکٹیریا کو ہلاک کرسکتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » صحت https://ift.tt/2IsVqEH