مرجانے پر ناچ گانا اور ڈھول کی تھاپ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

مرجانے پر ناچ گانا اور ڈھول کی تھاپ

یہ میری آوارہ گردی کی چاہ اور کیلاش کی پریاں دیکھنے کی شدید خواہش ہی تھی جو مُجھے مئی کی تپتی گرمی میں لاہور سے اْٹھا کر ہندوکش کے دامن میں آباد وادیٔ کیلاش تک لے گئی۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ کبھی کبھی منزِل سے بہتر راستے لگتے ہیں بس سمجھو کہ ہمارا حال بِھی کُچھ ایسا ہی تھا۔ لاہور سے راولپِنڈی/اِسلام آباد تک ہمارا رات کا سفر اونچے سُر لگاتے لگاتے گزرا۔ اور اس کے بعد سب ڈھیر ہو گئے۔

صوابی، مردان اور مالاکنڈ کے اضلاع سے ہوتے ہُوئے ہم لوئر دیر میں داخِل ہوئے۔ ریاست دیر ایک نوابی ریاست ہوتی تھی جو اب دیر زیریں اور دیر بالا میں تقسیم ہوچُکی ہے۔ اس پر نوابوں کا راج ہوا کرتا تھا۔ برطانوی راج کے وقت اسے اس کے وارثوں کے سپرد کیا گیا تھا اور قریب ایک صدی سے زیادہ نوابوں کا محکوم رہا۔ پھر جب یہ پاکستان کے ساتھ مل گئے تو اسے 1970ء میں مالاکنڈ ڈویژن میں ضم کردیا گیا۔ لوئردیر کو اگست 1996ء میں اپردیر سے علیحدہ کر کہ مالاکنڈ ڈویژن کے ایک علیحدہ ضلع کی حیثیت دی گئی۔

دیر لوئر اور دیر بالا دونوں کا شُمار پاکِستان کے حسین ترین قُدرتی عِلاقوں میں ہوتا ہے۔ دیرلوئر میں ہم چکدرہ، تیمرگرہ، خال اور رباط سے ہو کر دیربالا کی حدود میں داخِل ہُوئے۔ یہاں ہم واڑی سے ہوتے ہوئے دیر شہر پہنچے۔ دیر کی ساری وادی میں ہمارا ساتھی ’’دریائے پنجکوڑہ‘‘ تھا۔ یہ دریا اِس وادی کی شاہ رگ ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ چلتی سڑک صاف سُتھری اور پُختہ ہے۔ دیر پہنچ کر سب نے کھانا کھایا اور کُچھ دیر بعد ایک خوب صورت پہاڑ کی چوٹی پہ بنے پارک کا رُخ کیا۔ اِس پارک سے ہِندوکش کے پہاڑوں کا ایسا ’’وحشی‘‘ نظارہ تھا کہ جِس کے لیے لفظ ہی کم پڑ جائیں۔

گروپ لیڈر مسٹرعلی کی طرف سے یہ آرڈر تھا کہ صُبح 5 بجے ہم نے دیر سے کوچ کرنا ہے کیوںکہ آگے ’’لواری ٹاپ‘‘ ہمارا مْنتظر ہے۔

دورافتادہ پہاڑی ضلعے چترال کے عوام کے لیے موسم سرما میں ’لائف لائن‘ کی حیثیت رکھنے والی ملک کے سب سے بڑی سُرنگ ’’لواری ٹنل‘‘ پر کام کا آغاز 2005 میں پرویز مُشرف کے دور میں ہوا۔ یہ سُرنگ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال اور ضلع دیر کے درمیان درہ لواری میں پہاڑوں کے نیچے سے گزرتی ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی لیکن ادھوری سُرنگ ہے۔

لواری ٹنل سے گُزرنے کی تو حسرت ہی رہ گئی لیکن اسی بہانے دیر چترال روڈ کے ذریعے لواری پاس دیکھ لیا۔ دیر چِترال روڑ پر سفر میری زِندگی کا ایک یادگار تجربہ تھا۔ کسی لمبے اژدہے کی طرح بل کھاتی یہ روڈ دنیا کی 5 مشکل ترین سڑکوں میں شامل ہے۔ اور کیوں ناں ہو، ہِندوکش کے سخت اور گرینائٹ کے پہاڑوں کے درمیان پیچ و خم کھاتی یہ سڑک آپ کا تعلق رَب سے قائم رکھتی ہے۔ لواری ٹاپ سے ہو کہ ہم ضلع چترال میں داخل ہوتے ہیں جہاں کا سب سے پہلا شہر یا قصبہ ’’میرکھنی‘‘ ہے، یہ ہی وہ شہر ہے جہاں سے دریائے کُنار (اِسے کْنہار مت سمجھیے گا) ہمارا اِستقبال کرتا ہے۔ دریائے کنار کو دریائے چترال یا کاما بھی کہا جاتا ہے اور ’’گولن گول پاور پروجیکٹ‘‘ اِسی دریا پر بنایا جارہا ہے۔ اِس سے آگے “دروش” ہے اور اِس جگہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ واحد سیٹ جو پرویزمشرف کی جماعت “آل پاکِستان مْسلم لیگ” نے جیتی ہے(32-NA) وہ اِسی علاقے کی ہے۔ اِس سے آگے “ایون” نامی شہر ہے جہاں سے ہمیں بس سے ایک چھوٹی ویگن میں ٹھونسا گیا۔ پِھر انش، بتریک اور کراکل سے ہوتے ہْوئے ہم اپنی منزِل “بمبوریت” پہنچے۔ کیلاش اصل میں ایک وادی ہے جِس میں بمبوریت کے علاوہ بریر اور رومبر شامِل ہیں۔

ایون سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم بمبوریت پہنچے۔ بمبوریت، جہاں کے ایک ہوٹل کے سرسبز لان میں ہم نے اپنے خیمے گاڑے تھے، کیلاش کی وادی کا سب سے بڑا گائوں ہے اور چِلم جوشی کا مرکزی تہوار یہیں پر ہوتا ہے۔ کافرستان کی بارہ ہزار کی آبادی میں ’’کیلاش قبیلے‘‘ کی آبادی صِرف تین سے ساڑھے تین ہزار ہے۔اِن لوگوں کا کوئی مذہب نہیں ہے تبھی یہ ’’کافِر‘‘ کہلاتے ہیں۔

شام کو ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ایک خوب صورت پُل پر نظر پڑی، سوچا کہ آگے جا کر دیکھ لیا جائے۔ پُل کے بیچ میں پہنچ کر مُجھے محسوس ہُوا کہ اِس سے آگے درختوں کے جْھنڈ میں جو خوف ناک سی جگہ ہے، ہونہ ہو ضرور یہ کیلاش کا قبرستان ہے۔ میں اس طرف چل پڑا۔ پُل سے آگے ایک چھوٹا سا تنگ سا راستہ تھا جیسے ہی وہ راستہ ختم ہُوا ایک پُراِسرار سا فِلمی سین میرا مُنتظِر تھا۔ میرا شک ٹھیک تھا۔ یہ کیلاش قبائل کا قدیم و مشہور قبرستان تھا۔

کیلاش قوم اپنے مُردوں کو دفناتی نہیں تھی بلکہ یہ لوگ اُنہیں کُھلے تابوت میں لٹا کر قبرستان میں رکھ آتے تھے، جہاں بعد میں ان لاشوں کو جانور نوچ کھاتے تھے، میں نے بھی ان تابوتوں کو دیکھا، بعض میں تو اس وقت بھی ٹانگ، کولہے اور بازو کی ہڈیاں پڑی نظر آئیں، قبرستان میں ہر طرف تابوت ہی تابوت نظر آتے ہیں۔

حلیم بابا بمبوریت میں ایک چھوٹا سا ہوٹل چلاتے ہیں، اِنھوں نے مُجھے بہت سی نایاب معلومات فراہم کیں۔ اُن کے مطابق پِچھلے کئی سال سے کیلاشی اپنے مُردے دفن کرتے آرہے ہیں۔ یعنی مُردے تابوت میں چھوڑ آنے کا رِواج اب نہیں رہا۔ ہم نے اسی قبرستان میں(اور ایک دوسرے میں بھی) ایک تازہ بنی ہوئی قبر بھی دیکھی جس پر سرخ جھنڈا سا لگا ہوا تھا اور ایک چارپائی اس کے اوپر الٹی کرکے چھوڑدی گئی تھی۔ یہ وہ چارپائی ہوتی ہے جس پہ مُردے کو رکھ کر لایا جاتا ہے۔

کافرستان ایک مبہوت کردینے والی، منفرد اور خداداد حُسن سے مالامال اور پراِسراریت کے پردوں میں لپٹی ہوئی وادی ہے۔ یہاں کی سب سے اچھی بات جو مُجھے لگی وہ یہ کہ یہاں کہ مسلمان اور ’’کافِر‘‘ مِل جُل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ یہاں کے سبز پوش پہاڑ، بل کھاتے پانی، مکئی کے لہلہاتے کھیت، خوشبو بکھیرتی فضاؤں نے مجھے اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔ اور زرق برق لباس میں ملبوس کیلاشی حسینائیں، روایتی ٹوپیاں پہنی نوعمر بچیاں، دوکانوں پر کھڑی بوڑھی کیلاشی خواتین، سیاحوں کے منتظر کیلاشی مردوں کا ادھر ادھر گھومنا پھرنا یقیناً دل کشی سے خالی نہیں تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں تن تنہا یورپ کے کسی دور افتادہ خِطے کی سیاحت کر رہا ہوں۔ مجھے کیلاش کی سڑکوں اور گلیوں سے گزرتے ہوئے کہیں پرانی طرز کے لکڑی کے گھروں کی کھڑکیوں، کہیں دو منزلہ مکانوں، کہیں بالکونیوں سے جھانکتی سروں پر سیپیوں اور تاج والی ٹوپیاں اور گلوں میں پیلے اور نیلے کلر کی موتیوں کی مالائیں پہنے حسین دوشیزائیں دکھائی دیتی تھیں۔ یہ کیلاشی زبان میں بات کرتے تھے۔ حلیم بابا سے میں نے اِن کا مخصوص سلام “اِشپاتا” سیکھ لیا تھا (اس کا مطلب ہے آپ کیسے ہیں) جو میں ہر گزرتی خاتون ، بچے اور بوڑھے کو کرتا تھا۔

پاکِستان کے بعض خِطوں میں اُن کی جغرافیائی، لِسانی اور ثقافتی رِوایات کے مُطابق تہوار منائے جاتے ہیں۔ وادی کیلاش میں بہار کی آمد پر منایا جانے والا مشہور تہوار ’’چلم جوشی‘‘ بھی انہی میں سے ایک ہے۔

موسم بہار کے آتے ہی تینوں وادیوں میں چلم جوش کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تہوار کے خاص تین دن تمام مرد و خواتین وادی بمبوریت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ مقامی لوگ اسے ’’چلم جوشٹ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ چلم جوشی کے پہلے دن ’بیشاہ ‘ یعنی پھولوں سے گھروں کی سجاوٹ، دوسرے دن ’چیرک پی پی‘ یعنی دودھ تقسیم کرنے کی رسم کی ادائی اور’گل پریک‘ یعنی نو مولود بچوں کے والدین پربعض مقامات پرجانے کی مذہبی پابندی اُٹھانے اور سوگ کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے۔

یہاں کے سادہ لوح افرادآج بھی صدیوں پرانی روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرانی روایات کو مذہب کی طرح اپنایا ہوا ہے۔ اسی سبب سیاحوں کے لیے ان کی شادیاں، اموات، مہمان نوازی، میل جول، محبت مذہبی رسومات اور سالانہ تقاریب وغیرہ انتہائی دل چسی کا باعث ہیں۔ اِنہی دل چسپیوں کے باعث یہ عِلاقہ سیاحوں کے لیے ایک جنت ہے۔ چلم جوش جشن بہار اں کی تقریب ہے۔ مقامی افراد اس تہوار کے لیے کافی پہلے سے اور بہت سی تیاریاں کرکے رکھتے ہیں۔ مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہوتے یہاں ہر طرف سبزہ اگ آتا ہے اور چاروں طرف خوشبو پھیل جاتی ہے۔ خوب صورت لڑکیاں رنگ برنگ لباسوں میں تِتلیاں لگ رہی ہوتی ہیں۔ میں نے کیلاش جیسا حُسن پورے پاکستان میں اور کہیں نہیں دیکھا۔ گورا چٹا رنگ، لمبے گھنے بال اور غزالی آنکھیں، جیسے کہہ رہی ہوں

میری آنکھیں اگر شعر سنانے لگ جائیں

تُم جوغزلیں لیے پِھرتے ہو ٹھکانے لگ جائیں

اب آتے ہیں اِس علاقے کی ثقافت، رسم و رِواج اور بود و باش کی طرف:

٭کیلاشی تہذیب

کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہے، جو بیک وقت ایک مذہب بھی ہے اور ثقافت بھی۔ اس تہذیب کے کی زبان کو کلاشہ کہا جاتا ہے۔ چترال کے پُرامن ماحول میں یہ تہذیب آج بھی اپنی تمام تر رنگارنگی کے ساتھ موجود ہے۔ کیلاش کی ابتداء سے متعلق کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ کچھ انہیں آریائی اور کچھ یونانی نسل کہتے ہیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ کافروں کا تعلق قدیم یونانیوں سے ہے۔ ان کی بعض عادات قدیم یونانیوں سے ملتی جلتی ہیں۔

٭ایامِ زچگی اور ’’بشالینی‘‘

حکومتِ یونان کے تعاون سے بنائی گئی یہ جگہ ’’بشالینی‘‘ عورتوں کے لیے ہے۔ حلیم بابا نے بتایا کہ عورتوں کو مخصوص ایام اور زچگی کے دوران کئی کئی ہفتوں کے لیے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ ’’انہیں ناپاک مانا جاتا ہے۔ انہیں کسی چیز یا انسان کو چھونے تک کی اجازت نہیں ہوتی۔‘‘ انہیں ان ایام میں ایک مخصوص مکان (بشالینی) میں رکھا جاتا ہے۔ کھانا وغیرہ گھر والے ایک کھڑکی کے ذریعے اندر پہنچا دیتے ہیں۔

٭کھانا پینا

دوردراز ممالک سے آنے والے سیاحوں کو یہاں سب سے بڑا مسئلہ کھانے پینے کا ہوتا ہے، کیوںکہ کیلاش کے کئی باشندے مردہ جانوروں کو بھی کھا جاتے ہیں، جن میں کتے اور بلیاں بھی شامل ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو جانوروں کا کچا گوشت انتہائی رغبت سے کھاتے ہیں۔ لیکن یہاں کے سب سے مشہور خوراک ’’لوبیا‘‘ ہے۔ کیلاش میں بسنے والوں کا بنیادی ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔ اس کے علاوہ سیاحوں کے لیے رہائش گاہیں بھی کرائے پر دی جاتی ہیں۔

٭لِباس

خواتین کے لباس میں کالے رنگ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ کالے رنگ کے لباس پر مختلف رنگوں سے کڑھائی کی جاتی ہے۔ چھوٹی بچیاں بھی یہی لباس پہنتی ہیں۔ یہ لباس جہاں شوخ رنگوں سے سجایا جاتا ہے وہیں سیاح اس لباس کو منہ مانگے داموں خرید لیتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے یہ لباس ایسا خزانہ ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

سر پر ’’کھوپسی‘‘ پہنی جاتی ہے۔ کھو پسی کیلاش خواتین کی ایسی ٹوپی ہے جو غمی اور خوشی میں پہنی جاتی ہے، اسی ٹوپی میں پیشانی کے عین اوپر کیلاش خواتین پرندے کا رنگ دار پر لگاتی ہیں۔ یہی روایت سکندر اعظم کے فوجیوں کی تھی۔ مرد شلوار قمیص کے ساتھ ایک رنگ برنگی پٹی پہنتے ہیں جو ایک شانے سے نیچے کی طرف جاتی ہے۔

٭رہن سہن

کیلاشیوں کے گھر بہت خوب صورت ہوتے ہیں۔ میں انتہائی شکرگزار ہوں ڈاکٹرقُدسیہ کا جن کی بدولت میں یہ گھر اندر سے دیکھ سکا۔ لکڑی اور پتھر سے بنے یہ گھر 2 سے3 کمروں پہ مشتمل ہوتے ہیں۔گھر کے سب افراد ایک بڑے کمرے میں ساتھ رہتے ہیں۔ کُچھ گھروں میں کچن بھی بڑے ہال نما کمرے کے بیچ میں کھاتا ہے تاکہ کمرہ گرم رہ سکے۔ کیلاش کی وادی جتنی اجلی اور روشن دکھائی دیتی ہے، یہاں کے لکڑی کے گھر اتنے ہی ملگجی اندھیرے میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں اور ان گھروں میں شیشے جیسی انگلیوں سے شوخ رنگ کپڑے بنتی کیلاشی خواتین دکھائی دیتی ہیں۔ کیلاش کے باشندے اپنے گھر کا ایک کونہ مخصوص کرتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ یہاں پیور نامی ایک فرشتہ یا دیوتا موجود ہے جو اس وقت تک خوش نہیں ہوتا جب تک اسے بھینٹ نہیں دی جاتی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جس کونے میں دیوتا یا فرشتے کے لیے جگہ مخصوص کی جاتی ہے وہاں صرف مرد ہی جاسکتے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کو جانے کی وہاں اجازت نہیں ہے۔

٭وفات کی رسومات

دنیا کی انوکھی ثقافت اور روایات والے قبیلے کیلاش کے باشندوں کی ایک اور عجیب و غریب روایت اس وقت سامنے آتی ہے جب کیلاش میں کسی کا انتقال ہوجائے۔ کسی کے انتقال پر کیلاش کے باسی اپنا گھر تک لُٹا دیتے ہیں۔ ان کی تمام رسومات میں سب سے زیادہ دل چسپ اور عجیب رسم اموات پر سامنے آتی ہے۔ جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو یہ لوگ اس کی لاش کے سامنے کھڑے ہوکر اس خیال سے بندوق سے فائر کرتے ہیں تاکہ کہیں لاش میں اس کی روح واپس نہ لوٹ آئے۔ جس گھر میں کوئی مر جائے اس گھر سے عورت ایک مہینہ تک باہر نہیں نکلتی۔ اس دوران لوگ تعزیت کرنے کے لیے آتے جاتے ہیں۔ کیلاش کا سوگ عجیب خوشیوں کا سوگ ہوتا ہے۔ میت کو اجتماعی ناچ گاہ “جستگھان” میں رکھ دیا جاتا ہے۔ کسی مال دار کی وفات پر میت کو چار دن تک کمرے میں رکھ کر اس کے گرد ناچنا، گانا، ڈھول بجانا اور کھلی آزادی کے ساتھ سگریٹ وغیرہ پینا کیلاش قبیلہ کا سوگ ہے۔ غریب کیلاش کی موت پر سوگ کا خرچہ اس کی اپنی برادری اجتماعی امداد سے برداشت کرتی ہے۔ عورت کی وفات پر مذہب کا حکم چوبیس گھنٹے کے اندر اندر لاش کی تدفین کا ہے۔

زمانۂ قدیم میں یہ لوگ اپنے مُردے کی لاش کو صندوق میں ڈال کر وہاں قبرستان میں پھینک آتے تھے، جس کی وجہ سے پوری فضا بدبودار ہوجاتی تھی اور سانس لینا انسان کے لیے دوبھر ہوجاتا تھا اور ان صندوقوں کے سرہانوں پر مرنے والوں کے مجسمے ایستادہ ہوتے تھے، اس لیے کہ کچھ سال پہلے تک یہاں مردوں کو دفن نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی نذر آتش کیا جاتا تھا، بلکہ جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کی لاش ایک چار پائی پر ڈال کر قبرستان لے جاتے تھے، جہاں پہلے سے ہی ایک صندوق تیار ہوتا تھا، لاش کو اس صندوق میں رکھ کر اور چند ایک رسومات ادا کرلینے کے بعد اس کا ڈھکن بند کردیتے تھے اور پھر اس صندوق اور چارپائی کو وہیں چھوڑ کر تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوجاتے تھے ، البتہ اب باقاعدہ مُردوں کو دفن کیا جاتا ہے، تاہم باقی رسمیں وہی پرانی ہیں۔

٭زبان، رقص

کیلاش کے باسی کیلاشی زبان بولتے ہیں۔ یہ زبان ’’دری‘‘ زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ جس طرح کیلاش کے قبیلے کے تانے بانے مختلف اقوام سے جوڑے جاتے ہیں اسی طرح کیلاشی زبان کے بارے میں بھی آج تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی ہے۔ لسانیات کے ماہر رچرڈ اسٹرانڈ کا کہنا ہے کہ کیلاش کے باسیوں نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔

ایک اور حوالے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیلاش کا نام دراصل ’’کاسوو‘‘ تھا جو کہ بعد میں ’’کاسیو‘‘ استعمال ہونے لگا۔ ’’کاسیو ‘‘ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ آنے والے ادوار میں یہ ’’کاسیو‘‘ نام ’’کالاسایو‘‘ بنا اور پھر رفتہ رفتہ ’’کالاسہ ‘‘ اور پھر ’’کالاشہ‘‘ اور اب ’’کیلاش‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔

رقص کو یہاں خاص اہمیت حاصل یے۔ نہ صرف خوشی بلکہ کیلاشی غم کے موقع پہ بھی رقص کرتے ہیں، یہ بہار کا استقبال بھی رقص اور روایتی گیتوں سے کرتے ہیں۔ وہ میلہ دیکھنے والو ں کو بھی رقص کرنے کے لیے کھینچ لیتے ہیں۔ یہ مشرقی یورپ کا روایتی رقص لگتا ہے، جس میں رقص کرنے والے ساتھیوں کو کندھوں یا کمر سے پکڑ کر صرف پیروں کو ہلایا جاتا ہے۔

٭کالاش تور

کالاش تور یا دور کیلاش کے نام سے یہاں ایک خوب صورت میوزیم ہے۔ میوزیم کیا ہے ایک محل ہے۔ یہاں اندر وادی کی ثقافت کو نمایاں کیا گیا ہے۔

پتھریلے اور اونچے پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی وادیٔ کیلاش اپنی خوب صورتی اور رعنائی کے سبب دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ یہاں کی ثقافت اور تہذیب رنگوں اور جولانیوں سے بھرپور ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ اب یہ مٹنے کے قریب ہے۔ یہاں کے لوگوں کو بہت سے خدشات ہیں۔ ممکن ہے کل کو یہ وادی اور اس کے تہوار رہیں یا نہ رہیں، اس لیے پڑھنے والوں کو یہ جگہ زندگی میں ایک بار ضرور دیکھنی چاہیے۔

The post مرجانے پر ناچ گانا اور ڈھول کی تھاپ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2JqPikO