’کینسر‘ مہلک مرض سے بچاؤ کے لیے انفرادی سے ریاستی سطح تک کیا اقدامات ضروری ہیں؟ - KHB Point

کے-ایچ-بی پوائنٹ (ملکی و غیر ملکی تمام خبریں فراہم کرنے والاایک مکمل نیوزپلیٹ فام نیٹ ورک)

تازہ ترین

’کینسر‘ مہلک مرض سے بچاؤ کے لیے انفرادی سے ریاستی سطح تک کیا اقدامات ضروری ہیں؟

کینسر کا تعلق بنیادی طور پر انسانی جسم میں موجود خلیات سے ہے۔ اگر جسم میں موجود خلیات اپنے معمول کے مطابق نشونما جاری نہ رکھ سکیں یا غیرمعمولی طور پر اپنی تعداد اور سائز میں اضافہ شروع کردیں تو اس کے نتیجے میں کینسر کی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ یہ خلیات بڑھتے بڑھتے ایک بڑے مجموعے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جسے ٹیومر، ورم یا رسولی کہا جاتا ہے۔ یہ اضافہ جسم میں کئی خرابیوں کا باعث بنتا ہے جس میں خلیات پر دباؤ، جسم کے کسی حصے میں خون کی فراہمی میں مداخلت اور nerve (نس) کو دباؤ کے ذریعے ناکارہ کرنا شامل ہے۔

کینسر کو اس وقت دنیا میں اموات کی ایک بڑی وجہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سال 2012ء میں دنیا بھر میں کینسر کے ایک کروڑ چالیس لاکھ کیس رپورٹ کیے گئے اور خیال ظاہر کیا گیا کہ اگلی دو دہائیوں میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں 70 فی صد اضافہ ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کینسر عالمی سطح پر موت کا باعث بننے والی دوسری بڑی بیماری ہے۔ 2015ء میں کینسر کے سبب 88لاکھ اموات ریکارڈ کی گئیں۔

ادارے کے مطابق کینسر سے ہونے والی 70فی صد اموات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کینسر کے 14 لاکھ مریض ہیں اور ہر سال 80 ہزار لوگ اس بیماری کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں جب کہ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہے کیوںکہ بہت سے کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

عالمی ادارۂ صحت کے جاری اعدادوشمار کے مطابق سال 2015ء میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات کا سبب بننے والے کینسر کی پانچ بڑی اقسام میں پھیپھڑے کا کینسر سرِ فہرست ہے۔ اس میں مبتلا مریضوں کی تعداد سولہ لاکھ ہے۔ جگر کے کینسر کے نتیجے میں سات لاکھ اٹھاسی ہزار، آنت کے کینسر سے سات لاکھ چوہتر ہزار، معدے کے کینسر سے سات لاکھ چون ہزار اور بریسٹ کینسر سے پانچ لاکھ اکہتر ہزار اموات شامل ہیں۔

اس جان لیوا بیماری سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور اس سے متعلق عوامی آگاہی میں اضافہ انتہائی ناگزیر ضرورت قرار دیا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کینسر سے ہونے والی ایک تہائی اموات کے ضمن میں پانچ بڑی وجوہات کا ذکر کرتے ہیں، جن میں وزن میں اضافہ، خوراک میں پھل اور سبزیوں کا کم استعمال، جسمانی سرگرمی (ورزش) کا نہ ہونا، تمباکونوشی اور شراب کا استعمال شامل ہیں۔

یہ اَمر قابل ذکر ہے کہ تمباکونوشی کو کینسر کے لیے خطرے کی سب سے بڑی علامت سمجھا جاتا ہے، کیوںکہ کینسر سے ہونے والی 22 فی صد اموات میں بنیادی وجہ تمباکونوشی ہے۔ پاکستان میں 31.8 فی صد مرد اور 5.8 فی صد خواتین تمباکو کا استعمال کرتے ہیں، جن کی کل تعداد ڈیڑھ کروڑ (adults) ہے۔ اس کے علاوہ آلودگی، غیرمعیاری کھانوں، فوڈ کلرز، کیمیکلز کے بڑھتے ہوئے استعمال کو بھی کینسر کے پھیلاؤ کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔

فیملی میں کینسر کی ہسٹری رکھنے والے یا بڑی عمر کے لوگوں کو بھی کینسر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس کی واضح علامات کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا، تاہم جسم میں گلٹیاں بننے، السر کی بیماری سے صحت یاب نہ ہو سکنے یا وزن اور بھوک میں کمی ہوجانے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ ماہرین کے بقول کینسر کی مختلف اقسام کی علامات بھی مختلف ہوتی ہیں۔

پاکستان میں کینسر کی بڑھتی ہوئی مختلف اقسام میں سب سے زیادہ اضافہ چھاتی کے کینسر میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان میں ایشیا بھر میں چھاتی کے کینسر کے مریضوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر نویں خاتون کو بریسٹ کینسر کے خطرے کا سامنا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق40 ہزار خواتین ہر سال اس بیماری کی وجہ سے اپنی جانیں کھو بیٹھتی ہیں اور سالانہ 90ہزار خواتین اس بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں کو ہونے والے کینسر میں پروسٹیٹ اور لمفوما / لیوکیمیا، پھیپھڑے ، سر اور گردن کا کینسر عام ہے۔ خواتین اور مردوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی کینسر کا شکار ہوتے ہیں تاہم اس کی شرح بڑوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

بچوں کے کینسر کا علاج کرنے والی طبی ماہرین کے خیال میں پاکستان میں سالانہ آٹھ ہزار بچوں کو کینسر کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ ان کے مطابق یہ تعداد اپنی جگہ بہت زیادہ ہے لیکن اس سے بڑا مسئلہ ان آٹھ ہزار بچوں کے لیے تشخیص اور علاج کی سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔

بچوں اور بڑوں کے کینسر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بچوں کا کینسر بہت تیزی سے بڑھتا بھی ہے اور بہت تیزی سے ختم بھی ہوتا ہے، کیوںکہ ان میں کیموتھراپی بہت مؤثر ہوتی ہے۔ اس بناء پر ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کے کینسر کے علاج میں کام یابی کی شرح 85 فی صد سے بھی زیادہ ہے، جب کہ بڑوں میں یہ تعداد 30/20 فی صد ہے۔ اس لیے کہ ایک تو بچوں کا کینسر قابل علاج ہے دوسرا اس میں طویل المیعاد فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کے کافی سال اُسے مل جاتے ہیں۔

بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے کینسر کی وجوہات بھی الگ ہیں۔ بڑوں میں جنیاتی اثرات کے مقابلے میں ماحولیاتی اثرات زیادہ ہوتے ہیں جب کہ بچوں کے کینسر میں جنیاتی عوامل زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ اسی بناء پر بچوں کے کینسر میں prevention کی گنجائش بھی کم ہوتی ہے۔

کینسر کے علاج میں کام یابی کا انحصار ابتدائی تشخیص پر ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں نئی ادویات پر تحقیق کے عمل اور جدید ٹیکنالوجی کینسر کے علاج میں بہت مددگار ثابت ہوئی ہے۔ Lymphomas اور   Childhood leukemias ،70سے 95 فی صد قابل علاج ہیں اور چھاتی کے کینسر کے ابتدائی سٹیج پر علاج کی شرح 95فی صد ہے۔

گزشتہ دہائی میں ٹارگیٹڈ تھراپی نے مختلف اقسام کے کینسر کے علاج میں بہت مدد دی ہے جس میں ریڈیو تھراپی مشینوں میں مہارت اور منصوبہ بندی کی تیکنیک شامل ہے۔ اسی طرح سرجیکل آن کالوجی نے بھی نتائج کو بہتر بنانے میں بہت مدد کی ہے۔ جہاں تک کسی بھی اسٹیج پر کینسر کے قابلِ علاج ہونے کا تعلق ہے تو اس کا انحصار بہت حد تک اسپتال کے وسائل و سہولیات اور مریض کی استعداد پر ہے۔

اس وقت پاکستان میں کینسر کے مرض میں مبتلا افراد کے لیے علاج معالجے کا 80 فی صد بوجھ اٹامک انرجی کمیشن کے قائم کردہ اداروں پر ہے۔ کمیشن کے تحت ملک بھر میں 18کینسر اسپتال قائم ہیں جہاں کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی کی سہولیات کے ساتھ کینسر کا معیاری علاج کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نجی اسپتالوں اور سی ایم ایچ کے کچھ سینٹرز بھی موجود ہیں جو کینسر کا علاج کرتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ تمام سہولیات کافی ہیں۔

پاکستان کی آبادی اور کینسر کے مرض میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ موجود کینسر اسپتالوں کی تعداد میں کم از کم چار گنا اضافہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں اور عوام میں کینسر کے مرض کے بارے میں آگاہی کو بھی فروغ دیا جانا چاہیے تاکہ ابتدائی مراحل میں ہی کینسر کی تشخیص ممکن ہو سکے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت صحت کے حوالے سے شعور کو عام کرنے کی ہے۔ گلٹیاں بننے، السر کی بیماری سے صحت یاب نہ ہو سکنے یا وزن اور بھوک میں کمی ہو نے جیسی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔

کینسر کے علاج میں ایک بہت بڑا مسئلہ اس بیماری کی تشخیص میں تاخیر ہے۔ خاص طور پر دیہاتی اور دوردراز کے پس ماندہ علاقوں میں لوگ نیم حکیموں سے علاج کرانے میں وقت ضائع کردیتے ہیں اور جب وہ چوتھی اسٹیج پر ڈاکٹر کے پاس آتے ہیں تو ان کی بیماری کی شدت میں بہت اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اس صورت میں معالجین کے پاس ان کے علامتی علاج کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہوتا۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھ کر، ہیپاٹائیٹس اور کینسر کی بیماری کی دست یاب حفاظتی ویکسین (حفاظتی ٹیکے) لگوا کر، خوراک میں سبزیوں اور فروٹ کا زیادہ استعمال کرکے، ماحول، پانی، صاف غذا اور صحت مندانہ طرز زندگی یقینی بنا کر کینسر کے امکانات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ سگریٹ نوشی، پان، چھالیا سے انکار بھی کینسر کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں کینسر کے ماہر ڈاکٹروں کی تعداد انتہائی کم ہے جن کی کُل تعداد 150کے قریب ہے۔ ملک میں آنکالوجسٹ کی کمی پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ نئے ڈاکٹرز کو اس اسپیشلائزیشن کی طرف متوجہ کیا جا سکے۔ کینسر کے علاج کے لیے ایک اور پہلو اس کا انتہائی منہگا ہونا ہے۔

ایک عام آدمی کے لیے اس کے اخراجات برداشت کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس ضمن میں سرکاری و غیرسرکاری شعبوں کے اپنے اپنے طور پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں ادویات کو ارزاں نرخوں پر مریضوں کو فراہم کیا جاسکے۔ اس وقت اکثر اسپتالوں میں زکوٰۃ، بیت المال، ڈونیشن اور ویلفیئر سوسائٹیاں مستحق مریضوں کو کینسر کے علاج میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔

چوںکہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ کینسر کی بروقت تشخیص کا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ تمام سرکاری اسپتالوں میں کینسر کے علاج کا شعبہ قائم کرے جہاں ماہر ڈاکٹروں کی زیرنگرانی کینسر کی تشخیص اور علاج کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چوںکہ کینسر کا علاج معالجہ انتہائی منہگا ہوتا ہے اور مڈل کلاس لوگوں کے لیے اس کا علاج کروانا ہی ممکن نہیں ہو تا اس لیے حکومت کو اس جانب بھی توجہ مبذول کرنی چاہیے تاکہ نجی شعبے کے تعاون سے لوگوں کو آسان اور سستا علاج بھی مہیا کیا جاسکے۔

The post ’کینسر‘ مہلک مرض سے بچاؤ کے لیے انفرادی سے ریاستی سطح تک کیا اقدامات ضروری ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » صحت http://ift.tt/2FKdHMV